- فتوی نمبر: 34-05
- تاریخ: 20 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > الاجیر الخاص
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میری ڈیوٹی کے آرڈر 11 اگست 2023 کو ہوئے، میں نے اسی تاریخ کو خضدار جا کر حاضری دی لیکن اچانک میری ڈیوٹی پر کیس دائر ہوا اور مجھے کہا گیا کہ جب تک تمہاری ڈیوٹی سے کیس ختم نہ ہو جائے تب تک حاضری کے لیے ملازمت پر نہ آئیں۔ کیس کایہ سلسلہ تقریبا تین ماہ جاری رہا، ڈیوٹی تین ماہ کے بعد بحال ہوئی لیکن تقریبا ایک سال دفتر میں کاغذی کاروائی کروائی گئی، اس اثناء میں میں نے ڈیوٹی نہیں کی، ڈیوٹی نہ کرنے کی وجہ (۱) گھر کی دوری اور(۲) صاحب کی طرف سے اجازت کہ جب آپ کی تنخواہ جاری ہو تو پھر ڈیوٹی پر حاضری کے لیے آجانا،(۳) تنخواہ کی بندش ۔پھر دفتر کی طرف سے مکمل ایک سال کی تنخواہ دی گئی اس تنخواہ میں سے میں نے ایک لاکھ خود استعمال کیا او ر بقیہ دو لاکھ پچاس ہزارتجارت میں صرف کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ ان پیسوں کا استعمال میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہے: آپ پر جو کیس بنا تھا وہ کس بنیاد پر بنا تھا؟ اس سلسلے میں ملکی قانون کیا کہتا ہے؟ اس کیس کی مکمل فائل ہمیں بھیج دیں۔
جواب وضاحت : مفتی صاحب کیس کچھ اس طرح تھا کہ وہاں کے لوگ(خضدار والے) جنہوں نے جنگلات کے لیے فارم جمع کیے تھے وہ کہہ رہے تھے ہم حق دار ہیں اور کوئٹہ والے کہہ رہے تھے کہ ہم ان کے حق دار ہیں کیس عدالت کو پہنچا تو عدالتی کاروائی کے بعد کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔
سائل نے کیس کی جو فائل بھیجی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
تقرریوں کو چیلنج کرنے والے افراد نے اس بناء پر تقرری کو چیلنج کیا تھا کہ مذکورہ تقرریاں ڈویژن کی سطح پر ہونی چاہیے تھیں لیکن یہ تقرریاں ضلع کی سطح پر کی گئی ہیں لہذا ان کو کالعدم قرار دیں جبکہ عدا لتی فیصلے کے مطابق مذکورہ تقرریاں ڈویژن کی سطح پر ہی عمل میں لائی گئی ہیں لہذا سائلین کی پٹیشن کو ردکیا جاتا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: کیا 3 ماہ کے بعد جب آپ نہیں گئے تو آپ کی حاضری لگتی رہی تھی؟ آپ کی ڈیوٹی کیا تھی؟ اس دوران ڈیوٹی کون دیتا رہا؟
جواب وضاحت: باقی مہینوں میں میں ڈیوٹی پر نہیں گیا البتہ میری حاضری لگ رہی تھی اور میری جگہ کسی نے ڈیوٹی بھی نہیں کی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے لیے صرف تین ماہ کی تنخواہ لینا جائز ہے۔
تو جیہ : سائل کی حیثیت اجیر خاص کی ہے اور اجیر خاص پر شرعاً لازم ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر دستیاب ہو اگرچہ مستاجر اس سے کام نہ لے۔ مذکورہ صورت میں سائل تین ماہ تک حکومتی رکاوٹ کی وجہ سے کام نہ کر سکا لہٰذا سائل تین ماہ کی تنخواہ لے اور باقی مدت میں چونکہ رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود سائل کام پر حاضر نہیں ہوا اس لیے وہ اس کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہے لہذا سائل بقیہ مدت کی تنخواہ حکومت کو واپس کر دے جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اتنی مالیت کے ریلوے کے اوپن ٹکٹ خرید کر ضائع کر دیے جائیں۔
الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی (3/243) میں ہے:
قال: “والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم” وإنما سمي أجير وحد؛ لأنه لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بالمنافع، ولهذا يبقى الأجر مستحقا، وإن نقض العمل
مجلۃ الاحکام (ص:82) میں ہے:
(المادة 425) : الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved