• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میاں بیوی میں طلاق کے بعد بچے کی پرورش کا حق کسے ہے ؟

استفتاء

السلام علیکم !  محترم مفتی صاحب  مسئلہ یہ   پوچھنا ہے    کہ میاں بیوی دونوں کے درمیان طلاق ہو چکی ہے اور ان سے ایک عدد بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اب دونوں نے الگ الگ شادی کر لی ہے بچے کی عمر دو سال ہے ۔ ماں  بچے کو اپنے والدین کے سپرد کر گئی ہے اور اس کا  ( دوسرا )خاوند اس بچے کو لینے سے انکاری ہے۔ اب اس بچے کی پرورش کی ذمہ داری شرعی اعتبار سے کس کی ہے ؟ اس کے نانا کی کس حیثیت سے ہے اور باپ کی ہے تو بھی وضاحت سے بتا دیں ۔جبکہ باپ اپنے بیٹے کو لینا چاہتا ہے ۔

تنقیح : بچے کی ماں نے بچے کے خالو کے بھائی سے شادی کی ہے ۔ بچہ اس وقت نانا        نانی کے پاس ہے اور وہ اس کو  اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ۔بچے  کے دادا ، دادی  بھی  حیات ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  چاند کے حساب سے سات سال کی عمر تک  بچے کی پرورش کا حق  شرعا ً اس کی نانی  کو ہے ۔اور  سات سال  کی عمر کے  بعد  باپ  كو اسے اپنی پرورش میں لینے کا  حق ہوگا  ۔

توجیہ : اگر  میاں بیوی  میں  طلاق ہو جائے تو سات سال  کی عمر تک لڑکے  کی پرورش  کا حق اس کی  ماں کو رہتا ہے اور اگر  ماں  بچے کے غیر  ذی رحم محرم سے نکاح کرلے تو پھر بچہ  کی پرورش  کا حق نانی کو ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ  ماں نے  جس شخص  سے نکاح کیا ہے وہ بچے کا  ذی رحم محرم نہیں ہے اس لیے اس کی پرورش کا حق سات سال کی عمر تک   ماں کی بجائےنانی کو ہوگا اور سات سال  کی عمر کے  بعد بچے کو اپنی تحویل میں لینے  کا حق باپ کو ہوگا  ۔

فتاویٰ عالمگیری (1/ 541)میں ہے:

أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي … وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة … والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين… وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا.

الاختیار لتعلیل المختار (4/ 15) میں ہے :

قال: (ومن لها الحضانة إذا تزوجت بأجنبي سقط حقها) لقوله عليه الصلاة والسلام: «أنت أحق به ما لم تنكحي» ، وفي رواية: ” ما لم تتزوجي “، وفي حديث أبي بكر: «أمه أولى به ما لم يشب أو تتزوج» ، ولأن الصبي يلحقه من زوج أمه جفاء فيسقط حقها للمضرة، لأن حقها إنما يثبت في الحضانة لشفقتها نظرا له، فإذا زالت زال، بخلاف ما إذا تزوجت بذي رحم محرم من الصبي حيث لا تسقط لشفقته عليه، كما إذا تزوجت الأم بعمه والجدة بالجد لأنه لا يلحقه جفاء من جده وعمه.

الاختیار لتعلیل المختار (4/ 14) میں ہے:

«وكل من له حضانة لا يدفع إليه الولد ما لم يطلبه فعساه يعجز عنه، بخلاف الأب إذا امتنع عن أخذه بعد الاستغناء عن الحضانة حيث يجبر على أخذه إذا امتنع، لأن الصيانة عليه.»

مسائل بہشتی زیور (2/143) میں ہے :

میاں بیوی میں جدائی ہوگئی اور طلاق مل گئی اور گود میں بچہ ہے تو اس کی پرورش کا حق سب سے پہلے ماں کو ہے۔ ماں لینے پر تیار نہ ہو [یا میاں بیوی میں جدائی تو نہیں ہوئی لیکن ماں کا انتقال ہوگیا ، کما مر عن الدر المختار[ اور دوسرے لینے پر تیار ہوں تو پھر پرورش کا حق نانی کو پھر پڑنانی کو اس کے بعد دادی کو ہے۔ یہ نہ ہوں تو سگی بہنوں کو حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پرورش کریں ۔ اس کی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلی بہنوں کو مگر جو ماں شریک بہنیں ہیں وہ پہلے ہیں پھر باپ شریک بہنیں ہیں ۔ پھر خالہ اور پھرپھوپھی۔ اگر ان عورتوں میں سے کوئی نہ ہوتو پھر باپ زیادہ مستحق ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved