• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسافر قصر کی بجائے اتمام کرے تو کیا اس کے ذمے اعادہ واجب ہے؟

استفتاء

کوئی مسافر جان بوجھ کر چار رکعت والی نماز میں قصرکی بجائے اتمام کرتا ہے تو کیا اس کے ذمے نماز کا اعادہ ہے ؟اہل علم حضرات اگر دلیل یا حوالہ کا مطالبہ کریں تو کوئی بری بات نہیں ہوگی لہذا جواب کا مرجع بتاکر مشکور فرمائیں.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جی اس کے ذمے نماز کا اعادہ بنتا ہے۔

مراقی الفلاح(ص:425)میں ہے:

‌”فإذا ‌أتم ‌الرباعية “و الحال أنه “قعد القعود الأول” قدر التشهد “صحت صلاته” لوجود الفرض في محله وهو الجلوس على الركعتين وتصير الأخريان نافلة له “مع الكراهة” لتأخير الواجب وهو السلام عن محله إن كان عامدا فإن كان ساهيا يسجد للسهو “وإلا” أي وإن لم يكن قد جلس قدر التشهد على رأس الركعتين الأوليين “فلا تصح” صلاته لتركه فرض الجلوس في محله واختلاط النفل بالفرض قبل كماله.

الدر المختار (1/457) ميں ہے:

«(ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها ‌يكون ‌فاسقا آثما،وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها»

احسن الفتاوی(4/77)میں ہے:

سوال:اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قصر نہ کرے بلکہ پوری نماز پڑھے تو اس کا کیا حکم ہے؟کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟

جواب:مسافر پر قصر واجب ہے یہ شخص عمدا  ترک واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوگااس لیے اس پر توبہ اور اس نماز کا اعادہ واجب ہے۔

مسائل بہشتی زیور(1/249)میں ہے:

مسئلہ:ظہر، عصر اور عشاء کے فرض دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھے۔ جان بوجھ کر پوری چار رکعتیں پڑھنا گناہ ہے اور قاعدہ کی رو سے نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved