• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر کے مطابق دو طلاقیں دی ہیں جبکہ بیوی کہتی ہے تین دی ہیں

استفتاء

میں  زید  ہوں ۔تقریبا ایک سال سے میرے اور میری اہلیہ کے معاملات خراب تھے آئے دن لڑائی جھگڑے ہوتے پھر 7   اگست کی صبح لڑائی شروع ہوئی معمولی سی بات پر بحث شروع ہوئی  ۔بیوی نے تھپڑ دے مارا جس کی وجہ سے طیش میں آ کر میں نے بھی اسے مارا اور اسی کیفیت میں اسے طلاق دے دی ۔طلاق کے  الفاظ یہ   تھے  “تجھے طلاق دیتا ہوں ، تجھے طلاق دیتا ہوں  ہن توں  راضی اے  ” اس وقت میرا ایک بیٹا جس کی عمر 19 سال ہے موجود تھا اس کے مطابق دو طلاق کے بعد یہی لفظ کہے گئے تھے کہ ہن تو ں راضی  اے ،  ہن توں  رج لا ۔

میں اس معاملے میں آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں قرآن و سنت کے مطابق اس کا جو حل ہے وہ بتائیں اور اس معاملے میں میری رہنمائی  فرمائیں ۔ اللہ آپ سے راضی ہو۔ جزاک اللہ خیرا ۔

دارالافتاء کے نمبر سے بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے درج ذیل بیان دیا  :

بیوی کا بیان :

 میری شادی کو 22 سال ہو گئے ہیں  ۔جوان بچے ہیں ۔ کچھ عرصے سے میرے شوہر لڑائی جھگڑے میں  مار پٹائی کرتے رہتے ہیں  ۔میرے چہرے کی جلد خراب ہو گئی تھی جس پر شوہر غصہ کرتے تھے ایک دن بات  بڑھ گئی تو انہوں نے مجھے مارا  جس سے میں نیچے گر گئی تو  مجھے جوتی سے مارا اور تین مرتبہ کہا  ” کہ میں نے تجھے طلاق دی ”  اب تو خوش ہے !  اگلے دن اپنی ممانی کو بلا کر کہا کہ میں نے اس کو فارغ کر دیا ہے یہ میری طرف سے آزاد ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے تو دو دفعہ بولا تھا ۔ میرا بیٹا بھی  وہاں موجود تھا وہ بھی باپ کے دباؤ میں یہی کہہ رہا ہے کہ دو دفعہ بولا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی قسم اٹھا کر پہلے کہا کہ انہوں نے   مجھے نہیں مارا ۔ پھر بعد میں بیٹی سے جھوٹی قسم اٹھانے پر معافی مانگی ۔میں بالکل سچ بول رہی ہوں ۔ آج کل ان کو دوسری شادی کا شوق سوار ہے تو مجھ پر غصہ رہتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں  تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،  جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے ، لہٰذا اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے  ۔

توجیہ: طلاق کے معاملہ میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے ، لہذا اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے ،  یا اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہوجائے  ، تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے ، مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق شوہر  نے    جب  تین مرتبہ  کہا   کہ ” میں نے تجھے طلاق دی ” جسے  بیوی نے خود سنا ہے تو اس سے بیوی  کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ۔

شامی(8/106) میں ہے:

قالوا لو ادعت ‌أن ‌زوجها ‌أبانها بثلاث فأنكر فحلفه القاضي فحلف، والمرأة تعلم أن الأمر كما قالت لا يسعها المقام معه، ولا أن تأخذ من ميراثه شيئا ……….. وفي الخلاصة ولا يحل وطؤها إجماعا.

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

فتاوی محمودیہ(13/298)میں ہے:

سوال:زید نے کہا تین مرتبہ”میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں “زوجہ کا باپ لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا،زید طلاق سے منکر ہےاورکہتا ہے کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر تم لے گئے تو  میں طلاق دے دوں گا۔۔۔۔زوجہ الفاظ مذکور سابقہ کا خود سننا ظاہر کرتی ہےصورت مذکورہ  میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟اور نکاح جدید کس طرح ممکن ہے؟

جواب:جب عورت نے 3مرتبہ طلاق دینا خود سنا ہےتو پھر اس کے لیے زید کواپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں۔ جو جائز صورت بھی عورت کے قبضہ میں ہو زید سے بچنے کی اختیار کی جاوے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved