- فتوی نمبر: 34-124
- تاریخ: 07 دسمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > کفار اور گمراہ لوگوں سے معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین در ایں مسئلہ کہ ہمارے ڈاکٹر ،انجینئر اور دیگر ڈگریوں والے مسلمان اندرون ملک یا بیرون ممالک مثلاً روس ، ہندوستان ، امریکہ، برطانیہ، یورپ اور چین وغیرہ کی یونیورسٹیز، کالجز میں مختلف شعبہ جات میں حصول تعلیم وفن کے لئے جاتے ہیں ، اور ان اداروں میں پڑھانے والے، لیکچر دینے والے مختلف قسم کے اساتذہ ہوتے ہیں مسلم بھی غیر مسلم بھی۔ جہاں تک بات ہے مسلمان اسا تذہ کی اس پر تو کوئی اشکال نہیں ۔ لیکن جہاں تک بات ہے غیر مسلم اساتذہ کی تو ملک پاکستان کے اداروں میں بھی مرزائی ، شیعہ ، ہندو اور نیچری و منکرین حدیث، اور دہریہ (منکرین خدا) ہوتے ہیں۔ اور ہندوستان میں لیکچر دینے والے سکھ اور ہندو ہوتے ہیں ۔ جبکہ امریکہ، برطانیہ، یورپ، چین اور روس وغیرہ ممالک میں، یہود ونصاری ، ملحدین و مستشرقین اور دیگر حضرات کمیونسٹ ، کمیونزم ، بدھ مت، جین مت وغیره اسا تذہ ہوتے ہیں، پھر بیرون ممالک کے غیر مسلموں میں نکاح جیسی نعمت نہیں ہے، بلکہ صرف جنس پرستی ، نفسانی عیش پرستی اور زنا وغیرہ پایا جاتا ہے، اور ان کا کھانا پینا دیکھا جائے تو کہیں خنزیر کا گوشت ہےاور کہیں دیگر حرام جانوروں کا گوشت ہے۔ شراب نوشی تو بے حد ہے۔ اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ :
1۔ملک پاکستان میں مرزائیوں شیعوں ، دہریوں ، ہندؤوں ، منکرین حدیث وغیرہ۔ اور بیرون ممالک میں سکھوں ، ہندؤوں ، نصاری و یہود، ملحدین و مستشرقین ، کمیونسٹ و کمیونزم (جن کا خوردونوش بھی حرام ، اور حسب و نسب بھی نامعلوم ) تو آیا ایسے اساتذہ سے ہمارے مسلمان ڈاکٹروں وانجینئرز کا تعلیم حاصل کرنا از روئے شرع شریف جائز ہے؟ یا نہیں؟ نیز اس میں اہانت اسلام و مسلمین ہے یا نہیں؟
2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ملکی مفاد و تحفظ کے لئے غیر مسلموں سے ایٹمی چیزیں ، اسلحہ سازی ، جدید آلات حرب وضرب، جدید ٹیکنا لوجی سیکھنا اور حاصل کرنا کس حد تک جائز ہے؟
3۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک عزیز پاکستان میں غیر مسلم ( مثلا چائنیز وغیرہ) کام کرنے والوں کے لئے ان کے کھانوں میں کچھوے، گیدڑ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں کیا مسلمان ان کے لئے بطور باورچی ایسے کھانے شرعاً تیار کر سکتے ہیں؟ اور اگر تیار کرتے ہیں تو ان مسلمانوں کے متعلق کیا حکم ہے؟ ان کا ایمان و اسلام باقی رہے گا یا نہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2۔جو لوگ اپنے عقائد اور اعمال میں پختہ ہوں اور ان کے بارے میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ کفار کے عقائد و اعمال سے متاثر نہ ہوں گے اور نہ ہی ان کے اپنے عقائد واعمال متاثر ہوں گے اور مذکورہ تعلیم کی مذکورہ لوگوں سے حاصل کرنے کی مجبوری بھی ہو تو ایسے لوگوں کے لیے مذکورہ لوگوں سے تعلیم حاصل کرنا جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔
3۔کافروں کے لیے مسلمان بطور باورچی مذکورہ کھانے تیار کر سکتے ہیں اور محض کھانا تیار کرنے سے ان کے ایمان اور اسلام پر فرق نہیں پڑے گا البتہ ان کے ساتھ رہنے یا اٹھنے بیٹھنے سے فرق پڑ سکتا ہے لہذا جن مسلمانوں کا کافروں کے عقائد و اعمال سے متاثر ہونے کا غالب گمان ہو ان کے لیے مذکورہ کام کرنا جائز نہ ہوگا۔
توجیہ: اولاً تو ایک قول کے مطابق کفار مخاطب بالفروع نہیں ہیں لہٰذا ان کے لیے مذکورہ چیزیں (گیدڑ اور کچھوا وغیرہ) پکانا اعانت علی المعصیت کے زمرے میں نہیں آئے گا اور ثانیاً مذکورہ چیزوں (گیدڑ، کچھوے) کی حرمت خود مسلمانوں میں بھی مختلف فیہ ہے لہٰذا اس وجہ سے بھی یہ صورت اعانت علی المعصیت کی نہ بنے گی اور اعانت علی المعصیت کے علاوہ اور کوئی وجہ ممانعت کی معلوم نہیں ہوتی۔
2،1۔ تفسير الطبری (9/ 336 ) میں ہے:
«قال أبو جعفر: وهذا نهي من الله عباده المؤمنين أن يتخلقوا بأخلاق المنافقين، الذين يتخذون الكافرين أولياء من دون المؤمنين، فيكونوا مثلهم في ركوب ما نهاهم عنه من موالاة أعدائه.»
فيض القدير (6/ 112) میں ہے:
«والمؤمن أولى بموالاة المؤمن وإذا والى الكافر جره ذلك إلى تداعي ضعف إيمانه فزجر الشارع عن مخالطته بهذا التغليظ العظيم حسما لمادة الفساد {يا أيها الذين آمنوا إن تطيعوا الذين كفروا يردوكم على أعقابكم فتنقلبوا خاسرين}»
التنوير شرح الجامع الصغير (10/ 189) میں ہے:
إن الطباع سراقة ولأن الله أمر أن لا يساكن المؤمن المشرك صونًا للإيمان عن الابتذال بمخالطة الكفار فإن الظالمين بعضهم أولياء بعض والله ولي المتقين ولأن المخالطة تنفي وجوب المباينة والمعاداة.
ہندیہ (5/348) میں ہے:
لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمى معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية.
سنن ترمذی (رقم الحدیث:2912) میں ہے:
حدثنا علي بن حجر قال: أخبرنا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبيه، عن خارجة بن زيد بن ثابت، عن أبيه زيد بن ثابت، قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتعلم له كلمات من كتاب يهود قال: «إني والله ما آمن يهود على كتاب» قال: «فما مر بي نصف شهر حتى تعلمته له» قال: «فلما تعلمته كان إذا كتب إلى يهود كتبت إليهم، وإذا كتبوا إليه قرأت له كتابهم
مسند احمد (رقم الحدیث:2216) میں ہے:
حدثنا علي بن عاصم، حدثنا داود: حدثنا عكرمة، عن ابن عباس، قال: ” كان ناس من الأسرى يوم بدر لم يكن لهم فداء، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فداءهم أن يعلموا أولاد الأنصار الكتابة
آپ کے مسائل اور ان کا حل (8/176) میں ہے:
سوال : انگریزی زبان کو مذہب اسلام میں کیا حیثیت حاصل ہے ؟ کیونکہ ہمارے والد ین اس زبان سے سخت نالاں ہیں اور اس کے سیکھنے کے حق میں نہیں ہیں لیکن آج کل کے دور میں انگریزی سیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اس کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے ، لہٰذا آپ براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ مسلمانوں کے لئے انگریزی تعلیم حاصل کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ یہ غیر مسلموں کی زبان ہے، کیا مذہب اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم غیر مسلموں کی زبان سیکھیں؟
جواب : انگریزی تعلیم سے اگر دین کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو حرام ہے ، اگر دین کی حفاظت کے ساتھ دنیوی اور معاشی مقاصد کے لئے حاصل کی جائے تو مباح ہے اور اگر دینی مقاصد کے لئے ہو تو کار ثواب ہے ۔ انگریزی زبان سیکھنے پر اعتراض نہیں لیکن کیا موجودہ نظام تعلیم میں دین محفوظ رہ سکتا ہے؟ انگریزی سیکھے، انگریزی تہذیب نہ سیکھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
3۔ہدایہ (1/ 212) میں ہے:
«”وإذا تزوج الكافر بغير شهود أو في عدة كافر وذلك في دينهم جائز ثم أسلما أقرا عليه” وهذا عند أبي حنيفة وقال زفر رحمه الله النكاح فاسد في الوجهين إلا أنه لا يتعرض لهم قبل الإسلام والمرافعة إلى الحكام وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله في الوجه الأول كما قال أبو حنيفة رحمه الله وفي الوجه الثاني كما قال زفر رحمه الله له أن الخطابات عامة على ما مر من قبل فتلزمهم وإنما لا يتعرض لهم لذمتهم إعراضا لا تقريرا فإذا ترافعوا أو أسلموا والحرمة قائمة وجب التفريق ولهما أن حرمة نكاح المعتدة مجمع عليها فكانوا ملتزمين لها وحرمة النكاح بغير شهود مختلف فيها ولم يلتزموا أحكامنا بجميع الاختلافات
فتح القدير (3/ 414) میں ہے:
«وهذا تقييد له حيث أفاد أنهم التزموا المجمع عليه في ملتنا لا مطلقا»
المہذب فی فقہ الامام الشافعی، للشیرازی (1/ 451)میں ہے:
«وفي ابن آوى وجهان: أحدهما يحل لأنه لا يتقوى بنابه فهو كالأرنب والثاني لا يحل لأنه مستخبث كريه الرائحة ولأنه من جنس الكلاب فلم يحل أكله»
فتح الباری ، لابن حجر (9/ 616 ) میں ہے:
«وأما قول الحسن في السلحفاة فوصله ابن أبي شيبة من طريق ابن طاوس عن أبيه أنه كان لا يرى بأكل السلحفاة بأسا، ومن طريق مبارك بن فضالة، عن الحسن قال: لا بأس بها، كلها.»
المغنی لابن قدامہ (9/ 405)میں ہے :
«والمحرم من الحيوان، ما نص الله تعالى عليه في كتابه، وما كانت العرب تسميه طيبا فهو حلال، وما كانت تسميه خبيثا، فهو محرم؛ لقول الله تعالى {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} يعني بقوله: ما سمى الله تعالى في كتابه. قوله سبحانه: {حرمت عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل لغير الله به. وما عدا هذا، فما استطابته العرب، فهو حلال؛ لقول الله تعالى {ويحل لهم الطيبات} ………..وما استخبثته العرب، فهو محرم ………..فمن المستخبثات الحشرات، كالديدان، والجعلان، وبنات وردان، والخنافس، والفأر، والأوزاغ، والحرباء، والعضاة، والجراذين، والعقارب، والحيات.
وبهذا قال أبو حنيفة، والشافعي. ورخص مالك، وابن أبي ليلى، والأوزاعي، في هذا كله، إلا الأوزاغ، فإن ابن عبد البر قال: هو مجمع على تحريمه. وقال مالك: الحية حلال إذا ذكيت. واحتجوا بعموم الآية المبيحة……………..قال: (وكل ذي ناب من السباع، وهي التي تضرب بأنيابها الشيء وتفرس) أكثر أهل العلم يرون تحريم كل ذي ناب قوي من السباع، يعدو به ويكسر، إلا الضبع، منهم مالك، والشافعي، وأبو ثور، وأصحاب الحديث وأبو حنيفة وأصحابه. وقال الشعبي، وسعيد بن جبير، وبعض أصحاب مالك: هو مباح؛ لعموم قوله تعالى: {قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه} وقوله سبحانه: {إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله} ولنا، ما روى أبو ثعلبة الخشني، قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن أكل كل ذي ناب من السباع» . متفق عليه. وقال أبو هريرة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أكل كل ذي ناب من السباع حرام»
الفقہ الاسلامی و أدلتہ للزحیلی (4/ 2790)میں ہے:
«الحيوان المائي: هو الذي لا يعيش إلا في الماء فقط. وللعلماء في أكله رأيان: 1 – مذهب الحنفية، جميع مافي الماء من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة، فإنه يحل أكله بدون ذكاة إلا الطافي منه، فإن مات وطفا على الماء لم يؤكل. وأدلتهم كثيرة…….- مذهب الجمهور غير الحنفية،……حيوان الماء:السمك وشبهه مما لا يعيش إلا في الماء كالسرطان وحية الماء وكلبه وخنزيره ونحو ذلك، حلال يباح بغير ذكاة، كيف مات، حتف أنفه، أو بسبب ظاهر، كصدمة حجر، أو ضربة صياد، أو انحسار ماء، راسياً كان أو طافياً، وأخذه ذكاته، لكن إن انتفخ الطافي بحيث يخشى منه السقم يحرم للضرر.إلا أن الإمام مالك كره خنزير الماء.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved