- فتوی نمبر: 34-149
- تاریخ: 08 دسمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > زیب و زینت و بناؤ سنگھار
استفتاء
(1)سیاہ نما یا سیاہ خضاب استعمال کرنے والوں پر نکیر کرنی چاہیے یا نہیں؟ (2) کیونکہ امام ابو یوسف ؒ جواز کے قائل ہیں اور آجکل بہت سے علماء بھی ایسا کررہے ہیں۔ بعض مساجد کے اماموں کو ایسا کرتے دیکھا ہے تو کیا ان کے متعلق یہ حُسنِ ظن کر کے چھوڑ دیا جائے کہ یہ جواز کے قول پر عمل کررہے ہوں گے جس سے عوام اس مسئلہ میں گنجائش سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف ممانعت کی احادیث بہت سخت ہیں اور بغیر کسی غرض کی تخصیص کے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جس شخص کے بال اس عمر میں سفید ہو جائیں کہ جس عمر میں عموماً بال سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس شخص کے سیاہ خضاب لگانے پر نکیر کرنا درست ہے۔کیونکہ سیاہ خضاب لگانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
2۔ امام ابو یوسف ؒ کے قول سے سیاہ خضاب کے مطلق جواز پر استدلال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اولا تو امام ابویوسف ؒکے قول کا تعلق سیاہ خضاب سے ہونا محل نظر ہے کیونکہ اما م ابو یوسف ؒسے یہ عبارت ملتی ہے “كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها “اس عبارت کو ہندیہ اور شامی میں خضاب بالسواد پر محمول کیا ہے اور شامی اور ہندیہ میں اس کو “الذخیرۃ البرہانیہ” کے حوالے سےذکر کیا گیا ہے اور خود ذخیرہ اور المحیط البرہانی میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ بات ” شرح سیر الکبیر “سے لی گئی ہے ۔تاہم شرح السیر الکبیر میں یہ بات مطلق خضاب کے بارے میں ہے سیاہ خضاب کے بارے میں نہیں ۔لہذا ہماری رائے میں امام ابویوسفؒ کا یہ قول مطلق خضاب کے بارے میں ہے کیونکہ جیسے زینت سیاہ خضاب سے ہو سکتی ہے اسی طرح سیاہ کے علاوہ کسی اور خضاب سے بھی ہو سکتی ہے۔ ہماری اس توجیہ کی تائید حضرت تھانویؒ سے بھی ہوتی ہے کیونکہ حضرت تھانویؒ نے “اصلاح الرسوم” میں امام ابو یوسفؒ کے قول کی توجیہ ذکر کرنے سے قبل “بشرط ثبوت اس روایت کے” ذکر فرمایا ہے جس سے معلو م ہوتا ہے کہ اس روایت کا ثبوت محل نظر ہے ۔
ثانیا اگر اس قول کو ثابت مان بھی لیا جائے تو اہل علم کے نزدیک یا تو امام ابویوسفؒ کا یہ قول ضعیف ہے یا یہ قول اس شخص کے لیے اجازت پر محمول ہے جس کے بال بیماری کی وجہ سے قبل از وقت سفید ہو گئے ہوں۔
1۔سنن ابو داؤد (رقم الحدیث : 4212) میں ہے:
عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة.
ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتر کا سینہ ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی ۔
سنن ابی داؤد (رقم الحدیث:4204) میں ہے:
عن جابر رضی اﷲ عنه قال أتی النبی صلی اﷲ عليه وسلم بابی قحافة یوم الفتح ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً فقال النبی صلی اﷲ عليه وسلم غیروا هذا بشئی واجتنبوا السواد.
ترجمہ:حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ رضی اﷲ عنہ کو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا گیا ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ کے مانند بالکل سفید تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ خضاب سے احتراز کرو
شامی (6/ 422)میں ہے :
(قوله ويكره بالسواد) أي لغير الحرب.
قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو، ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها
2۔ہندیہ (5/ 359) میں ہے:
«اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ وبعضهم جوز ذلك من غير كراهة وروي عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها. كذا في الذخيرة.
شامی (6/ 422) میں ہے:
«(قوله ويكره بالسواد) أي لغير الحرب.
قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو، ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها.
الذخيرة البرہانیہ(7/374)میں ہے :
وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبعضهم جوزوا ذلك من غير كراهية، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها، هذه الجملة من شرح «السير الكبير.
المحيط البرہانی (5/ 377) میں ہے:
وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبنحوه ورد الأثر عن عمر رضي الله عنه، وبعضهم جوزوا ذلك من غير كراهية، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها. هذه الجملة من شرح «السير الكبير»
شرح السير الكبير[1]للسرخسی (ص14) میں ہے:
فأما نفس الخضاب فغير مذموم بل هو من سيما المسلمين قال عليه السلام: «غيروا الشيب ولا تتشبهوا باليهود» . وقال الراوي: رأيت أبا بكر رضي الله عنه على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولحيته كأنها ضرام عرفج، بنصب العين ورفعه مرويان. يريد به أنه كان مخضوب اللحية. فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين الأعداء كان ذلك محمودا منه. فأما إذا فعل ذلك في حق النساء فعامة المشايخ على الكراهة وبعضهم جوز ذلك. وقد روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها.
امداد الاحکام (4/373)میں ہے :
جواب: أخرج النسائی فی سننه: أخبرنا عبدالرحمن بن عبیدالله الحلبي عن عبدالله وهو ابن عمرو عن عبدالکریم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رفعه أنه قال قوم یخضبون بهذا السواد آخرالزمان کحواصل الحمام لایريحون رائحة الجنة. و قد أخرج بعده حدیث ابی قحافة أنه صلی الله عليه وسلم قال فيه غیروا هذا بشئ وجنبوه السواد رواہ الجماعة الاَّ البخاری والترمذی وهو حدیث صحیح۔ پس یہ حدیث توضیح ہے کہ سیاہ خضاب سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض لوگ آخر زمانہ میں سیاہ خضاب لگائیں گے ان کو جنت کی خوشبو نہ پہنچے گی اور فتویٰ اسی پر ہے کہ سیاہ خضاب جائز نہیں مگر یہ کہ جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لئے لگانا جائز ہے۔ قال فی العالمگیرية أمّا الخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاة لیکون أهيب فی عین العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشائخ ومن فعل ذالک لیزین نفسه للنساء و لیحبب نفسه اليهن مکروه (ای کراهة التحریم للاطلاق) وعليه عامة المشائخ:(ج؍۶،ص؍۲۳۸) اور امام ابویوسف ؒ سے اس میں جو رخصت مروی ہے۔ جیسا کہ عالمگیری وشامی میں مذکور ہے۔ وہ روایت ضعیف ہے یا مؤول ہے اس خاص صورت کے ساتھ جبکہ کسی کے بال بوجہ مرض قبل ازوقت سپید ہوجائیں۔
امداد الفتاوی (4/216)میں ہے:
…………………. قائلین بالجوازکی کوئی دلیل قوی نہیں ، ان کے ادلّہ سب مخدوش ہیں ، راویۃً بھی اور درایۃً بھی …………
خلاصہ یہ کہ حرمت کی ادلّہ قوی ہیں ‘ اور جواز کی کوئی دلیل قوی نہیں ؛ اس لئے عامّۂ علماء کا فتوی اس کی حرمت پر ہے۔
احسن الفتاوی (8/371) میں ہے:
مجوزین کے دلائل: …………………حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے جوان بیوی کی دلجوئی کے لئے سیاہ خضاب کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ فتاوی عالمگیریہ اور شامیہ وغیرہ میں ان سے منسوب یہ قول لکھا ہے :كما يعجبنى ان تتزين لى يعجبها ان اتزين لها .
جواب:اس کے متعلق حضرت تھانوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :بعض لوگ امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کی روایت کو پیش کیا کرتے ہیں، سو بشرط ثبوت اس روایت کے اور ان کے رجوع نہ کرنے کے جواب یہ ہے کہ رسم المفتی میں یہ بات مقرر ہو چکی ہے کہ صاحبین رحمہااللہ تعالیٰ میں اگر اختلاف ہو تو جس کے ساتھ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ ہونگے اس قول پر فتوی ہوگا ، خصوصاً جبکہ وہ قول دلیل صریح صحیح سے مؤید بھی ہو ۔
اس لئے امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر عمل کرنا خلاف اصول مقررہ مذہب حنفی ہے اور بوجہ موجود ہونے دلیل صحیح صریح کے خلاف دیانت بھی ہے۔(اصلاح الرسوم ص ۲۴ )
خلاصہ یہ کہ اولاً تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس کا ثبوت یقینی نہیں، پھر احتمال رجوع بھی قوی ہے ، ان دونوں سے صرف نظر کر لیا جائے تو یہ ایک غیر مفتی بہ اور مرجوح قول ہے ، چنانچہ عالمگیریہ اور شامیہ ہی میں مذکور الصدر قول کے ساتھ ہی یہ لکھا ہے :
ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبّب نفسه اليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشائخ
راجح و مستند مسائل کو نظر انداز کر کے متروک اقوال کے سہارے اپنا مقصد نکالنا اتباع شریعت نہیں اتباع ہویٰ ہے ، کتب فقہ میں حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے منسوب کتنے ہی اقوال ہیں جو مرجوح و غیر مفتی بہ ہیں، مجوزین خضاب کو ان اقوال میں سے کسی قول پر عمل کرنے کا شاید عمر بھر خیال بھی دل میں نہ گزرا ہو ، آخر اس ایک قول پر ہی اس درجہ اصرار کیوں ہے ؟ کسی جویائے حق مسلمان کے لئے ایک ہی راہ متعین ہے جسے جمہور علماء نے راجح و منقح قرار دیا ، ورنہ ہر شخص اگر کتابوں سے اپنے من پسندا قوال چھانٹ چھانٹ کر عمل شروع کر دے تو دین کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
خلاصہ یہ کہ صریح احادیث اور جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ تعالی کے واضح ارشادات کی روشنی میں سیاہ خضاب کا استعمال نا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
[1] المبسوط للسرخسی (10/199) میں ہے:
وأما الخضاب فهو من علامات المسلمين قال – صلى الله عليه وسلم -: «غيروا الشيب ولا تتشبهوا باليهود» وكان أبو بكر الصديق – رضي الله عنه – يختضب بالحناء والكتم حتى قال الراوي رأيت ابن أبي قحافة – رضي الله عنه – على منبر رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ولحيته كأنها ضرام عرفج واختلفت الرواية في أن النبي – صلى الله عليه وسلم – هل فعل ذلك في عمره؟ والأصح أنه لم يفعل، ولا خلاف أنه لا بأس للغازي أن يختضب في دار الحرب ليكون أهيب في عين قرنه، وأما من اختضب لأجل التزين للنساء والجواري فقد منع من ذلك بعض العلماء رحمهم الله تعالى والأصح أنه لا بأس به، هو مروي عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها
© Copyright 2024, All Rights Reserved