- فتوی نمبر: 34-150
- تاریخ: 08 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ایک شخص کا انتقال 1976 میں ہوا، اس کے ورثاء میں اس کی بیوی، 6 بیٹے(زید، بکر ، خالد، ضیاء ، عمر ، سمیع) اور 3 بیٹیاں تھیں۔ مرحوم کے والدین مرحوم سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔پھر بڑے بیٹے (زید) کا انتقال 1978ء میں ہوا۔ زید کے ورثاء میں بیوہ اور ایک بیٹا موجود ہے۔پھر دوسرا بیٹا( بکر )2016ء میں فوت ہوا۔ بکر کے ورثاء میں ایک بیوہ اور 8 بیٹیاں موجود ہیں۔ پھر تیسرا بیٹا (خالد)2018 میں فوت ہوا۔ خالد کے ورثاء میں ایک بیوہ، 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں موجود ہیں۔ پھر چوتھا بیٹا ( عمر ) 2022ء میں فوت ہوا۔ عمر کے ورثاء میں ایک بیوہ، 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں موجود ہیں۔جبکہ دو بیٹے (ضیاء اور سمیع) اور تینوں بیٹیاں حیات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مرحوم کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں میت کے ترکہ کے 1140480 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 231600 حصے (20.3072 فیصد) میت کی بیوہ کو، 134064 حصے (11.7551فیصد ) میت کے دونوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو، 67032 حصے(5.8775 فیصد) تین بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو،16632 حصے (1.4583 فیصد) زید کی بیوہ کو، 94248 حصے (8.2638 فیصد) زید کے بیٹے کو،16632 حصے (1.4583فیصد) بکر کی بیوہ کو،11088 حصے(0.9722 فیصد) بکر کی 8 بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو، 16758 حصے (1.4694 فیصد) خالد کی بیوہ کو، 31654 حصے(2.7755 فیصد) خالد کے دو بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو ،15827 حصے (1.3878 فیصد) خالد کی دو بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو، 16758 حصے (1.4694فیصد) عمر کی بیوہ کو، 31654 حصے (2.7755فیصد) عمر کی دو بیٹوں میں سے ہر بیٹی کو اور 15827 حصے(1.3878 فیصد) عمر کی دو بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved