- فتوی نمبر: 34-152
- تاریخ: 08 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
پہلے طلاقنامے کی عبارت:
نوٹس اول
زید ولد خالد……… کی شادی نکاح ہمراہ عائشہ دختر بکر …….کے ساتھ مورخہ 2010-10-08 کو بمطابق شرع محمدی سرانجام پائی جو کہ مابین فریقین کے درمیان بچے …………………. پیدا ہوئے ………… اب جب کہ مذکوریہ حقوق شوہری ادا کرنے سے قاصر ہے اگر مذکوریہ میرے گھر آباد نہ رہی تو نوٹس دوئم اور نوٹس سوئم دیکر اپنی زوجیت سے الگ کر دوں گا لہذا نوٹس اول روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردیا ہے۔ سائن بهی لیا ہے ۔ (2023-06-05)
دوسرے طلاقنامے کی عبارت:
نوٹس دوئم (طلاق)
زید ولد خالد……… کی شادی نکاح ہمراہ عائشہ دختر بکر …….کے ساتھ مورخہ 2010-10-08 کو بمطابق شرع محمدی سرانجام پائی جو کہ مابین فریقین کے درمیان بچے ………………… پیدا ہوئے ………… اب جب کہ مذکوریہ حقوق شوہری ادا کرنے سے قاصر ہے…….. لہذا نوٹس دوئم روبرو گواہان حاشیہ ارسال کر رہا ہوں درست ہے تاکہ سند رہے بوقت ضرورت کام آوے۔(2023-07-06)
تيسرے طلاقنامے کی عبارت:
نوٹس سوئم (طلاق ثلاثہ)
زید ولد خالد……… کی شادی نکاح ہمراہ عائشہ دختر بکر …….کے ساتھ مورخہ 2010-10-08 کو بمطابق شرع محمدی سرانجام پائی جو کہ مابین فریقین کے درمیان بچے …………پیدا ہوئے جبکہ مذکوریہ کا رویہ درست نہ تھا بوجہ غیر آبادگی نوٹس اول اور نوٹس دوئم قبل ازیں ارسال کر چکا تھا اب جب کہ نوٹس سوئم طلاق ارسال کر رہا ہوں جبکہ عدت پوری کرنے کے بعد جہاں چاہے عقد نکاح کر سکتی ہے مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر بھی مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ لہذا یہ طلاق نامہ روبروگواہان حاشیہ تحریر کردیا ہے۔ تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔(2023-08-04)
سوال یہ ہے کہ ان تین نوٹس کے بعد رجوع کی گنجائش ہے؟ اور نوٹس ایک ایک ماہ کے وقفے سے دیا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: شوہر اور بیوی کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔
جواب وضاحت: بیوی**********، شوہر **********
دار الافتاء کے نمبر سے بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے درج ذیل بیان دیا:
شوہر نے جب طلاق نامے بھیجے تھے ان دنوں مجھے ماہواری نہیں تھی لیکن ماہواری کے متعین دن بھی یاد نہیں البتہ ہر مہینے پچھلے مہینے سے دو تین دن پہلے ماہواری آتی ہے اور یہی عادت ہے کبھی کبھار چار دن پہلے بھی آجاتی ہے۔
شوہر کا بیان:
ان تینوں طلاق ناموں پر میرے ہی دستخط ہیں البتہ تیسرے طلاقنامے کے وقت والدہ نے مجبور کیا تھا کہ طلاق دو ورنہ ہم تمہارے معاملات کو کبھی حل نہیں کریں گے، تم جانو اور تمہارا کام جانے تو اس لیے میں نے تیسرے طلاقنامے پر بھی دستخط کر دیے کیونکہ میں اکیلا والدین کے بغیر ان معاملات کو حل نہیں کر سکتا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور نکاح مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔
توجیہ : پہلے نوٹس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اس کے نہ عنوان میں طلاق کا ذکر ہے اور نہ معنون میں۔ اسی طرح دوسرے نوٹس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اس کے عنوان میں اگرچہ طلاق کا ذکر ہے لیکن معنون میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں البتہ تیسرے نوٹس سے تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں کیونکہ اس کے عنوان میں بھی “طلاق ثلاثہ ” کا ذکر ہے اور معنون میں بھی” سوئم طلاق” کا ذکر ہے اور سوئم طلاق بنتی ہی تب ہے جب اس سے پہلے اول اور دوئم بھی ہو گویا سوئم طلاق کا لفظ اول اور دوم کو بھی متضمن ہے بالخصوص جبکہ عنوان بھی “طلاق ثلاثہ “کا ہو۔
شامی (3/244) میں ہے:
الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ……… وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
شامی (3/246) میں ہے:
وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه
شامی (3/409) میں ہے:
(لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذ كما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول …… حتى يطأها غيره
البحر الرائق (3/313) میں ہے:
وفيها أيضا أنت طالق تمام الثلاث أو ثالث ثلاثة فثلاث ولو قال أنت طالق غير ثنتين فثلاث ولو قال غير واحدة فثنتين
ہندیہ (1/372) میں ہے:
ولو قال أنت طالق تمام ثلاث أو ثالث ثلاث فهي ثلاث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved