- فتوی نمبر: 34-165
- تاریخ: 09 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > طہارت > وضوء کا بیان
استفتاء
گزارش ہے کہ آپ حضرات کی طرف سے جاری کردہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب نور اللہ مرقدہ کا مرتب کردہ ایک سالہ فہم دین کورس پڑھانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے الحمدللہ عوام تو عوام خود میرے لئے بہت ہی مفید سلسلہ ہے اللہ تعالی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین
آمدم برسر مطلب یہ کہ دوران مطالعہ ودرس کچھ ایسی باتیں جو سمجھ نہیں آ سکیں یا جن پر اپنی ناقص عقل کی وجہ سے کچھ اشکال سا ذہن میں آیا وہ سمجھنا یا حل کرنا چاہ رہا ہوں امید ہے تشفی فرما دیں گے، بعداز تحقیق جو بھی نتیجہ سامنے آئے اس سے بندہ کو بھی مطلع فرمادیں گے،جزاکم اللہ خیرا
مسائل بہشتی زیور (ج1 ،ص :39 ،وضو کے فرائض ، ط:2016 ء، مکتبہ الحسن ،لاہور) میں مذکور مسئلہ:
مرد کی انگوٹھی وغیرہ یا عورت کی انگوٹھی‘ چھلے‘ چوڑی‘ کنگن‘ دستی گھڑی وغیرہ ایسے تنگ ہوں کہ بغیر ہلائے پانی نہ پہنچنے کا گمان ہو تو ان کو ہلا کر اچھی طرح پانی پہنچا دینا ضروری اور واجب ہے۔ نتھ اور لونگ کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر سوراخ تنگ ہو کہ ہلائے اور پھرائے بغیر پانی نہ پہنچے گا تو منہ دھوتے وقت گھما کر اور ہلا کر پانی اندر پہنچانا واجب ہے۔
اس مسئلہ میں فقط ” واجب” کی تعبیر سے ذہن میں کھٹک محسوس ہوئی کہ بالعموم وضو کے مسائل میں واجبات کا تذکرہ نہیں ہے، دوسرا یہ کہ اس حکم کو فرض سے تعبیر کرنا مناسب تھا کیونکہ ان سوراخوں میں پانی پہنچانا انہی اعضاء کے بیان میں ہے جن کو دھونا وضو میں فرض ہے،چنانچہ مجمع میں جب اس مسئلہ کو پڑھا گیا تو سوال اٹھا کہ جی آج تک تو ہر طرف سے یہ بات سننے میں آتی رہی کہ وضو میں واجبات کوئی نہیں ہیں ، فرائض ہیں یا سنن ومستحبات فقط،اور ہے بھی ایسے ہی ۔ اس لیے عوام الناس میں تشویش سے بچاؤ کی خاطر یہاں فرض کی اصطلاح ہی استعمال ہو تو مناسب ہوگا ،ہاں چونکہ مصنف علیہ الرحمۃ اس عالم سے کوچ کر چکے ہیں تو اب حاشیہ میں اس کی وضاحت ہو جائے کہ واجب سے مراد فرض ہی ہے ۔کیونکہ ان اعضا ء کی فرضیت کی تمامیت ان سوراخوں میں پانی پہنچانے سے ہی ممکن ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں “واجب ” کی تعبیر حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کی اختیار کردہ نہیں بلکہ یہ تعبیر حضرت تھانویؒ کے بہشتی زیور میں اسی طرح ہے اور اسے حضرت ڈاکٹر صاحبؒ نے بہشتی زیور سے نقل کیا ہے، اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی نہیں فرمائی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات کہ” وضو میں واجبات کوئی نہیں” علی الاطلاق درست نہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ واجب کی دو قسمیں ہیں ایک قسم واجب کی وہ ہے جو اعتقاداً وعملاً دونوں طرح واجب ہو ، واجب کی یہ قسم وضو اور غسل میں نہیں ہے اور دوسری قسم واجب کی وہ ہے جو اعتقاداً واجب ہو اور عملاً فرض ہو ، اسے واجب ِ اعتقادی اور فرضِ عملی بھی کہتے ہیں ، واجب کی یہ قسم وضو اور غسل میں بھی ہے جس کی تفصیل شامی کے حوالے میں مذکور ہے ۔ مذکورہ مسئلہ بھی اسی دوسری قسم (واجبِ اعتقادی اور فرض ِعملی) میں داخل ہے اور ایسے واجب کی تعبیر اہل علم نے “فرض” سے بھی کی ہے اور” واجب ” سے بھی کی ہے لہٰذا مذکورہ مسئلہ میں “واجب” کی تعبیر اختیار کرنا علمی اعتبار سے قابلِ اشکال نہیں ۔
باقی رہی عوام کی تشویش؟تو اولاً ہمارے سامنے تو یہ تشویش کبھی نہیں آئی حالانکہ ہمیں بھی مسائل بہشتی زیور پڑھتے پڑھاتے کافی عرصہ ہوگیا ہے بلکہ حضرت تھانویؒ کے بہشتی زیور کے پڑھنے پڑھانے والوں کے سامنے بھی نہیں آئی اور ثانیاً اہل علم حضرات اس طرح کی تشویش کو بآسانی رفع کرسکتے ہیں اور ثالثاً اگر مذکورہ تعبیر کو بدل کر “فرض” کی تعبیر اختیار کی جائے تو اس سے فرضِ اعتقادی کا ایہام ہوگا جوکہ حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ عوام میں اور عام اہل علم میں فرض ِ عملی کا تصور نہیں ہے۔
فتاوى عالمگيری (1/ 5)میں ہے:
تحريك الخاتم سنة إن كان واسعا وفرض إن كان ضيقا بحيث لم يصل الماء تحته. كذا في الخلاصة وهو ظاهر الرواية.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص:63)میں ہے:
“ويجب” أي يلزم “تحريك الخاتم الضيق” في المختار من الروايتين لأنه يمنع الوصول ظاهرا وكان صلى الله عليه وسلم إذا توضأ حرك خاتمه.
قوله: “في المختار من الروايتين” وروى الحسن عن الإمام إنه لا يجب .خانية.
فتاوی قاضی خان علی ہامش الہندیہ(1/9)میں ہے:
ولو كان في إصبعه خاتم إن كان واسعا لا يحتاج إلى تحريكه وإن كان ضيقا ولم يحركه روى الحسن عن أبي حنيفة وأبو سليمان عن أبي يوسف ومحمد رحمهم الله أنه يجوز وقال بعضهم في الضيق لا بد من التحريك.
حلیہ لابن امیر حاج (1/99،100)میں ہے:
[م] وأن يحرك خاتمه إن كان واسعا، وان كان ضيقا ففى ظاهر الرواية عن أصحابنا لابد من تحريكه أو نزعه، هكذا ذكره في المحيط.
[ش] ووافقه صاحب البدائع على لفظ : إن كان ضيقاً لا بد من تحريكه، لكن من غير تقييده بظاهر الرواية عن أصحابنا وعلله بقوله: ليصل الماء إلى ما تحته ويوافقه في المعنى ما في الخلاصة نقلاً عن مجموع النوازل تحريك الخاتم سنة إن كان واسعاً وفرض إن كان ضيقاً بحيث لم يصل الماء تحته وإطلاق المحيط على ما ذكره المصنف محمول على هذا. وقد صرح بهذا القيد صاحب الهداية في مختارات النوازل، وأما ما في محيط رضي الدين السرخسي: ولو كان في إصبعه خاتم ضيق ولم ينزعه جاز، محمول على أنه بحيث أن يصل الماء إلى ما تحته بيقين انتهى، ويؤيده إردافه له بقوله: والاحتياط أن يحرك الخاتم ليصل الماء تحته بيقين، انتهى. وفي الذخيرة وعيون المسائل: إذا كان في إصبعه خاتم ضيق فالاحتياط فيه إذا لم ينزعه في الوضوء والغسل ذكر بلفظ الاحتياط وأنه واجب ذكره في كثير من المواضع، انتهى. هذا وفي الفتاوى الخانية: وإن كان ضيقاً ولم يحركه، روى الحسن عن أبي حنيفة وأبو سليمان عن أبي يوسف ومحمد أنه يجوز، فلعل التقييد بظاهر الرواية احتراز عن هذا، لكن ينبغي حمل كون الخاتم المذكور مع ضيقه على أنه بحيث يصل الماء تحته جمعاً بين المرويين وجرياً على مقتضى الدليل، فإن لبس الخاتم الضيق الذي بحيث لا يدخل الماء تحته ليس بعارض يوجب سقوط الغسل عما تحته شرعاً فتنبه له ثم قد أسمعناك من الخلاصة أن تحريك الواسع سنة، وكذا عد قاضي خان في شرح الجامع الصغير تحريك الخاتم مطلقاً من السنن، والظاهر أنه محمول على ما يدخل الماء تحته لما ذكرنا، ثم وجه كونه أدباً أو سنة القياس على تخليل الأصابع بعد العلم بوصول الماء إلى ما بينها، وقد عرفت ثمة أن الأوجه كون التخليل حينئذ مستحباً فكذا التحريك هنا، ثم بعد إحاطة العلم بهذا فما في المحيط وإن لم يكن ضيقاً فلا يحركه، وما في الفتاوى الخانية والبدائع وإن كان واسعاً فلا حاجة إلى التحريك نفي لوجوب التحريك، وقد أفصح في الذخيرة بهذا النص وإن لم يكن ضيقاً لم يجب تحريكه، انتهى. وهو لا ينافي كون التحريك في هذه الحالة أدباً كما لا يخفى، ثم لعل ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان وعن محمد أنه ليس بشيء، انتهى. أي: واجب أو مسنون إذا كان بحيث يصل إلى ما تحته إن ثبت هذا عنه، والله سبحانه أعلم.
درمختار (1/318) میں ہے:
ولو كان خاتمه ضيقا نزعه أو حركه وجوبا كقرط.
درمختار (1/271) میں ہے:
وتحريك خاتمه الواسع ومثله القرط، كذا الضيق إن علم وصول الماء والا فرض.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح(ص:56)میں ہے:
الفرض قسمان قطعي وهو ما ثبت بدليل قطعي موجب للعلم البديهي ويكفر جاحده وظني وهو ما ثبت بدليل قطعي لكن فيه شبهة ويسمى عمليا وهو ما يفوت الجواز بفواته وحكمه كالأول غير أنه لا يكفر جاحده فإن نظر فيه إلى أصل الغسل والمسح كان من الأول وإن نظر إلى التقدير كان من الثاني ……وقد يطلق الفرض ويراد به ما يشمل القطعي والعملي ويطلق الواجب ويراد به الفرض العملي أيضا ولهذا قال بعض المحققين إنه أقوى نوعي الواجب وأضعف نوعي الفرض
شامی (1/231) میں ہے:
أفاد أنه لا واجب للوضوء ولا للغسل وإلا لقدمه
وفي الشامية قوله ( أفاد الخ ) حيث ذكر السنن عقب الأركان هنا وفي الغسل ولم يذكر لهما واجبا ولو لم يكن كلامه مفيدا ذلك لقدم ذكر الواجب على السنن لأنه أقوى فمقتضى الصناعة تقديمه وأراد بالواجب ما كان دون الفرض في العمل وهو أضعف نوعي الواجب لا ما يشمل النوع الآخر وهو ما كان في قوة الفرض في العمل لأن غسل المرفقين والكعبين ومسح ربع الرأس من هذا النوع الثاني وكذا غسل الفم والأنف في الغسل لأن ذلك ليس من الفرض القطعي الذي يكفر جاحده تأمل ثم رأيت التصريح بذلك في شرح الدرر للشيخ إسماعيل واحترز بقوله للوضوء وللغسل عن نفس الوضوء والغسل فإن الوضوء يكون فرضا وواجبا وسنة ونفلا كما قدمه الشارح وكذا الغسل على ما يأتي في محله.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved