- فتوی نمبر: 34-166
- تاریخ: 09 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > زبردستی طلاق کہلوانا
استفتاء
میری بیوی نے مجھ سے کچھ عرصہ قبل خلع کا مطالبہ کیا اور رشتہ داروں کو اکٹھا کر کے مجھ سے زبردستی طلاق لے لی میں اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا میں نے ایک طلاق بائن دی اس کے بعد ان لوگوں نے زبردستی مجھ پر فورس کر کے اسی مجلس میں صریح طلاق کے الفاظ نکلوائے۔ 10 بندوں نے مجھے کہا کہ زبان سے تین دفعہ طلاق کے الفاظ بولو، میں نے تین دفعہ بول دیا کہ “میں نے ماہا کو طلاق،طلاق، طلاق دی” یہ صرف ایک ہی مجلس میں ہوا، میں اٹھ کر مجلس سے چلا گیا لیکن مجھے زبردستی مجلس میں لا کر بٹھایا گیا اور میں ا سے حد سے زیادہ محبت کرتا تھا لیکن اس نے مال کی کمی کی وجہ سے مجھ سے طلاق لے لی میں نے اپنی حیثیت کے مطابق اسے ہر طرح کی سہولت دے دی تھی مثلاً اے سی اور انٹرنیٹ کی سہولت اور ہر ضرورت کی چیز گھر میں مہیا کر دی تھی کام والی کی سہولت بھی دی تھی لیکن وہ لڑکی کھاتے پیتے گھر سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اس کو یہاں سہولیات بہت کم لگتی تھیں۔ لڑکی گھر کی ہر بات اپنی ماں کو بتاتی تھی اور اس کی ماں بجائے لڑکی کو سمجھائے اس کو بھڑکاتی تھی، میں نے ڈھائی سال کے اندر کبھی اس کو نہ مارا اور نہ ہی گالی دی نہ کبھی گھر سے نکالا اور اس کی خدمت کرتا رہا۔ اب میری رہنمائی فرمائیں کہ وہ واپس آسکتی ہے یا نئی شادی کی تیاری کروں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی صلح کی کوئی گنجائش باقی ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں آپ سے جب تین طلاق کے الفاظ کہلوائے گئے اس وقت اگرچہ آپ رضامند نہیں تھے اور آپ سے زبردستی یہ الفاظ کہلوائے گئے لیکن پھر بھی ان الفاظ سے طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ شوہر جب زبان سے طلاق کے الفاظ بول دے تو ان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے چاہے شوہر سے زبردستی ہی وہ الفاظ کہلوائے گئے ہوں نیز اس سے پہلے شوہر ایک بائنہ طلاق دے چکا تھا اور اس کے فورا بعد اسی مجلس میں تین طلاق کے الفاظ کہلوائے گئے اس لیے الصریح یلحق الصریح والبائن کے اُصول کے تحت تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
شامی (3/325) میں ہے:
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح
شامی (3/306) میں ہے:
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح
شامی (2/619) میں ہے:
(ومحله المنكوحة) أى ولو معتدة عن طلاق رجعى أو بائن غير ثلاث فى مرة وثنتين فى أمة
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}
احسن الفتاویٰ (5/164) میں ہے:
سوال: زید نے ایک بار شعور لڑکی سے شادی کی، شادی کے تین چار مہینے بعد میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے تو عورت کے ورثاء پستول کے ذریعے جبری طلاق لیتے ہیں شوہر بیچارا ڈر کے مارے تین طلاق تین لفظوں سے بغیر کسی مال کے عوض کے دے کر نیت رجعی کرتا ہے پھر دس پندرہ یوم کے بعد اعلان رجعت کرتا ہے اب اس کا رجوع کرنے سے ہی ہوگا یا نہیں ؟
جواب:مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے اس لیے طلاق مغلظ ہو گئی اور طلاق مغلظ میں نیت رجوع کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے اس سے رجوع کرنا صحیح نہیں ایسے ابتلا کی حالت میں یہ تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے کہ طلاق لکھ دے زبان سے نہ کہے حالت اکراہ میں لکھنے سے طلاق نہیں پڑتی دوسری تدبیر یہ ہے کہ لفظ طلاق کے ساتھ متصل انشاءاللہ کہہ دیں تو طلاق نہیں ہوگی خواہ انشاءاللہ آہستہ ہی کہاں ہو بشرطیکہ خود آواز سنے قال فی شرح تنویر: ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران ولو عبدا أو مكرها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved