• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کا اپنی زندگی میں گھر بیٹوں کے نام ہبہ کرنے کے بعد بیٹوں کے فوت ہونے کی صورت میں وراثت کا حکم

استفتاء

میرے والد صاحب نے ایک14 مرلے، 80 فٹ کا پلاٹ خریدا، جس میں ایک کمرہ، ایک باتھ روم، ایک کچن موجود تھا۔ والد صاحب نے اس پلاٹ کا اسٹام اپنے تین بیٹوں (ٰزید،  خالد، بکر) کے نام ایشو کر وایا اور اس کی رجسٹری اور انتقال بھی تینوں بیٹوں کے نام کروایا۔ اور اسٹام میں یہ لکھا ہے کہ اب یہ تینوں بھائی برابر کے مالک ہیں۔ اس وقت ہم تینوں بھائی نابالغ تھے۔ ابو نے اس پر ایک گھر بنایا اور وقت گزرتا رہا، سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں۔ 2005ء میں میری  بہن  دونوں بھائیوں (خالد ، بکر ) کو لے کر کاغان ناران سیر کے لیے چلی گئی۔ حالانکہ ان کو بہت منع کیا گیا، ان کا وہاں ایکسیڈنٹ ہو گیا اور دونوں بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا میں ( زید) اس وقت عمان میں تھا۔ خالد کا ایک بیٹا تھا اور  بکر  کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا جو  بکر کے فوت ہونے کے بعد پیدا ہوا تھا۔ بکر  کی بیوہ اپنے بیٹے کو لے گئی اور اس نے دوسری شادی کر لی اور بیٹی کو میرے والدین نے اپنے پاس رکھ لیا اور اس کی پرورش کی اور بعد میں اس کی شادی بھی کی۔

خالد کی بیوہ جو چترال سے تھی، کے بارے میں مجھے سب لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس سے شادی کر لو ، تا کہ اس کا بیٹا پاس رہے اور اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاسکے تو میں نے اس سے شادی کرلی۔ میں چونکہ عمان میں تھا اس لیے ہمارا نکاح ٹیلی فون کے ذریعے ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس بیوہ کا بھائی چترال سے ملنے آیا، ابو نے ان کی دعوت کی، سب نے کھانا کھایا، لیکن رات کو انہوں نے میرے ماں باپ کو نشے والی دوائی دے دی جس کی وجہ سے میرے ماں باپ بے ہوشی کے عالم میں چلے گئے اور صبح دیر تک سوتے رہے۔ رات کے کسی وقت وہ اپنے بھائی کے ساتھ اپنے بیٹے کو لے کر چترال چلی گئی، میں اس وقت عمان میں تھا، بعد میں جب میری گھر بات ہوئی تو انہوں نے ساری بات بتائی۔ اس بات کو 10،12 سال ہو چکے ہیں، اس کا آج تک کوئی پتہ نہیں، ایک دفعہ فون پر بات ہوئی لیکن اس نے فون بند کر دیا، پھر میرا اس سے رابطہ نہیں ہوا، پھر میں نے دو سال بعد اسے طلاق دے دی جس کی سند میرے پاس موجود ہے۔

2008ء میں میرے ابو نے عدالت میں کیس کیا جس میں انہوں نے میرے بھائیوں کی جائیداد کو اپنے نام ٹرانسفر کروالیا، کچھ زمین اپنے نام کروائی اور کچھ والدہ کے نام کروائی اور بھائیوں کو اس میں غیر شادی شدہ لکھا۔ اب یہ ابو نے کیوں لکھا؟ اس وقت وکیل سے کیا مشورہ ہوا؟ مجھے اس کا کچھ علم نہیں، کیونکہ میں اس وقت عمان میں تھا۔ میرے والد نے اس وقت مجھے اتنا کہا تھا کہ رجسٹری کا کوئی مسئلہ ہے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے مجھے پیسے بھیجو بس اس سے زیادہ انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا اور میں نے ان کو پیسے بھیج دیے۔ ہمارے ایک ماموں عمر اس کے گواہ ہیں ان کا نام کورٹ آرڈر میں موجود ہے۔ گھر میں میرے ابو کا ہی حکم چلتا تھا۔ میرے ابو نے چونکہ جگہ خریدی تھی وہی مالک تھے انہوں نے ہی گھر بنایا تھا انہوں نے ہی سارا کچھ کیا تھا ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں تھا اگر انہوں نے کسی کو کچھ دیا تو اپنی مرضی سے دیا جس سے لیا تو اپنی مرضی سے لیا، اس بات کا انہوں نے کسی سے مشورہ نہیں کیا، اگر کیا ہے تو مجھے اسکا علم نہیں، میں اس وقت وہاں ان کے ساتھ نہیں تھا، میرے پاسپورٹ سے اور میرے ویزے سے اس چیز کی گواہی مل سکتی ہے کہ میں پاکستان میں نہیں تھا۔

بکر  کی بیٹی جس کو میرے والدین نے پالا تھا اس کے والد کے نام جو زمین تھی والد صاحب نے اس کی فرد نکلوا کر اس جگہ کو بیچ کر اس کی بیٹی کی اچھے طریقے سے شادی کی، اس کا ریکارڈ بھی پٹوار خانے میں موجود ہے۔  بکر کی زمین والد صاحب نے دو دفعہ بیچی تھی۔ ایک دفعہ سوا مرلہ بیچی، وہ انہوں نے اپنی ضرورت کے لیے بیچی تھی دوسری دفعہ پونے دو مرلے جگہ بیچی جو انہوں نے  بکر  کی بیٹی کی شادی کے لیے بیچی تھی۔

2010 میں جبکہ میں  بکر  کی بیوہ سے شادی کر چکا تھا میرے ابو نے گھر میں میرے حصے کا جو پورشن تھا اس کی دیوار کر کے اور دروازہ علیحدہ کر کے مجھے دے دیا، باقی جو جگہ بچی تھی ( تقریبا 5 مرلے ، 215 فٹ) اس میں ابو کا ہی کنٹرول تھا، ابو اس کے مالک تھے ، بھائی کی بیوہ جس سے میں نے شادی کی تھی، کے جانے کے بعد پھر ابو اور امی اس گھر میں رہتے رہے۔

2019 میں میری امی اللہ کو پیاری ہو گئیں جس کے بعد اکیلے والد صاحب اس علیحدہ پورشن میں رہتے رہے، پھر دسمبر 2021 میں ابو کو فالج ہو گیا اور وہ بیمار رہنے لگے بالآخر جون 2023ء میں ابو بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب والدین کی وفات کے بعد بہنوں کا کہنا ہے کہ یہ ساری جگہ جہاں ابو رہتے تھے یہ ہماری ہے، ابو نے آپ کو  شروع میں آپ کا حصہ دے دیا تھا اور اس حوالے سے انہوں نے مجھے ٹارچر بھی کیا اور بہت برا بھلا کہا، حالانکہ ابو نے کسی طرح کی کوئی وراثت کسی کے لیے نہیں لکھی اور نہ ہی کسی کے لیے کوئی وصیت کی ہے۔ بچپن میں ابو نے کس کو کیا کہا؟ اس کا مجھے علم نہیں، جو حقدار ہو گا اس کو اس کا حصہ ضرور ملے گا، باقی والد صاحب نے جوانی میں بچپن میں کس کو کیا کچھ دیا یا لیا اس کا سب کو پتہ ہے۔

ایک بات قابل ذکر ہے کہ بچپن میں میری ایک بہن پیدا ہوئی تو اس کے پیدا ہوتے ہی والد نے اسے میرے چچا کو گود دے دیا، وہ شرعی طور پر ہماری بہن ہے لیکن نادرا  کے ریکارڈ میں وہ ہماری بہن نہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا بھی ابو کی وراثت میں حصہ ہے تو آپ ہم میں یعنی ایک بھائی تین بہنوں اور فوت شدہ بھائیوں کے بچوں میں وراثت کی تقسیم کے بارے میں ہماری رہنمائی کریں۔ میں آپ کو اپنا اور بہنوں کا نمبر لکھ کر بھیج رہا ہوں۔ اللہ کی رضا کے مطابق جو بھی فیصلہ آپ ہمارے بارے میں کریں گے وہ ہمیں اللہ کی رضا کے لیے منظور ہو گا۔

بہنوں کا بیان:

والد صاحب نے چونکہ بھائی  زید کو ان کے حصے کی وراثت زندگی میں ہی دے  دی تھی اس لیے باقی گھر میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بات والد صاحب نے ہمیں اپنی زندگی میں کئی بار کہی تھی کہ  زید کو اس کے حصے کی جائیداد مل چکی ہے اب جو باقی جائیداد ہے وہ تم بہنوں کی ہے۔اس کے علاوہ بھائی  زید نے باقی دونوں بھائیوں کے حصے کے گھر میں، جو کہ والد صاحب کے زیر تصرف تھا، ایک دکان بھی بنائی تھی اور اس کے علاوہ والد صاحب کے انتقال کے بعد یہ گھر بھی کرائے پر دے دیا تھا اس کا کرایہ بھی بھائی  زید  ہی کو آتا ہے۔

دوکان اور کرایہ سے متعلق بھائی زید کی وضاحت: جب میرے والد صاحب بیمار تھے اور میرے والد صاحب کے پاس رہنے کے لیے اور کوئی بھی نہیں تھا تو میں نے ان کے پاس ہی رہنا تھا اس لیے والد صاحب نے مجھے کہا کہ یہاں گھر پہ آپ ایک دکان بنالو پرچون کا کام چل جائے گا اور تم میرے پاس ہی رہو۔ کیونکہ ان کے پاس اور کوئی بھی نہیں تھا گھر میں ایک میں ہی تھا بچے نہیں کر سکتے تھے چھوٹے تھے۔ تو اس لیے مجھے پاکستان میں ہی رہنا پڑا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ میں ان کی خدمت میں رہا۔ پھر میں نے اپنے گھر سے کچھ جگہ لی اور کچھ تھوڑی سی جگہ جو ابو کی طرف تھی گراج کے ساتھ وہ لے کر میں نے گھر کے اندر ایک دکان پرچون کی بنائی اور اس سے ہمارا معاش چلتا رہا۔ پھر دو ڈھائی سال والد صاحب کی خدمت میں ادھر پاکستان میں ہی رہا۔ جب تک والد صاحب حیات رہے میں پاکستان میں رہا ہوں باہر واپس نہیں گیا میرا ویزہ بھی ختم ہو گیا۔ جب تک میں پاکستان میں رہا میرے سر پر تقریبا چھ لاکھ روپے قرضہ ہو گیا میں اسی گھر کی دکان سے ہی گھر کا چھوٹا موٹا خرچہ چلاتا رہا اور ایک دفعہ میرے بجلی کا میٹر کٹ گیا تھا تو میں نے اپنی بہن سے 64 ہزار روپے کا قرضہ بھی لیا جو میں ابھی تک نہیں دے سکا۔ جب واپس گیا تو گھر خالی تو نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لیے اسے کرایہ پر دے دیا اور کرایہ مجھے ہی آتا ہے۔ اس کا ٹیکس اور مینٹنس بھی کر رہا ہوں اور سنبھال بھی رہا ہوں۔

وضاحت مطلوب ہے: والد صاحب کے مکان آپ تینوں بھائیوں کے نام کروانے کی کاپی ارسال کریں۔

جواب وضاحت:ساتھ  لف ہیں  اور جو ڈگری والد صاحب نے بھائیوں کی وفات کے بعد بنوائی وہ بھی لف ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو حصہ بكر اور  خالد کے نام تھا ان دونوں کے انتقال کے بعد اس حصے کے حقدار ان دونوں کے ورثاء ہیں لہٰذا والد کا ان دونوں کو غیر شادی شدہ ظاہر کر کے زمین اپنے نام کروا کر بیچنا درست نہیں تھا۔ ان دونوں کے حصے کی ان کے ورثاء میں تقسیم کی تفصیل یہ ہے کہ  بكر کے حصے کی زمین کے کل 72 حصے ہونا تھے جن میں سے 12 حصے(16.67%)والد، 12 حصے(16.67%) والدہ، 9 حصے(12.50%) زوجہ بكر، 13 حصے(18.05%) بكر کی بیٹی اور 26 حصے(36.11%) بكر کے بیٹے کے تھے۔ آپ کے والد نے بكر کے حصے کی زمین کا جو حصہ اپنی ضرورت کے لیے بیچا اگر وہ ان کے مذکورہ حصے کے برابر یا کم تھا تب تو بیچنا جائز ہو گیا اور اگر زیادہ تھا تو زیادہ حصہ بیچنا جائز نہ تھا لہٰذا یا تو  بكر کے دیگر ورثاء سے کہہ کر اسے معاف کرایا جائے یا پھر والد کی جائیداد میں اتنا حصہ  بكر  کے  ورثاء کو دیا جائے۔ اسی طرح  بكر  کی زمین کا جو حصہ آپ کے والد نے  بكر کی بیٹی کی شادی کے لیے بیچا اگر وہ  بكر  کی بیٹی کے حصے کے برابر یا اس سے کم تھا تب تو یہ بیچنا درست تھا اور اگر فروخت کردہ حصہ زیادہ تھا تو زیادہ حصہ بیچنا جائز نہیں تھا لہٰذا اس میں بھی یا تو یہ حصہ  بكر کے دیگر ورثاء سے معاف کرایا جائے یا پھر والد کی جائیداد میں سے ان کے حوالے کیا جائے۔

اس مرحلے سے گزرنے کے بعد جو صورتحال سامنے آئے اسے بتا کر  بكر  کے حصے کی بقیہ زمین کی صورت تقسیم دریافت کر لی جائے۔

خالد کے حصے کی جو زمین ہے اس کی صورت تقسیم یوں ہوگی کہ اس کے کل 120 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 15 حصے(12.5%)  خالد  کی بیوی کے ، 65 حصے(54.16%)  خالد کے بیٹے کے ، 16 حصے(13.33%) آپ (زيد ) کے اور 8 حصے(6.67%) آپ کی بہنوں میں سے ہر بہن کے ہوں گے۔ آپ کی بہنوں میں سے جو چچا کے پاس رہتی ہے اس کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔

توجیہ: آپ کے والد نے جب مذکورہ زمین خریدتے ہوئے رجسٹری  آپ تینوں بھائیوں کے نام  سے کی تو وہ زمین آپ تینوں کی ملکیت  ہو ئی کیونکہ آپ تینوں اس وقت نابالغ تھے اور والد صاحب نے  بطور ولی کے آپ کی طرف سے زمین خریدی تھی اور جو رقم والد صاحب نے ادا کی وہ ان کی طرف سے تبرع اور  احسان تھا۔  پھر جب آپ کے بھائیوں کا انتقال ہوا تو وہ زمین آپ کے بھائیوں کے ورثاء کی ملکیت میں چلی گئی لہٰذا آپ کے والد کا اس کو بغیر تقسیم کیے اپنے استعمال میں لانا جائز نہ تھا اس گناہ سے نجات پانے کا طریقہ یہی ہے کہ یا تو ورثاء سے اسے معاف کرایا جائے یا پھر جس کا جو حصہ بنتا ہو اسے ادا کر دیا جائے۔

بدائع الصنائع (2/234) میں ہے:

ولا يجوز التصرف في ملك الغير بغير إذنه

البحر الرائق (5/180) میں ہے:

‌أن ‌الشركة ‌إذا ‌كانت بينهما من الابتداء بأن اشتريا حنطة أو ورثاها كانت كل حبة مشتركة بينهما فبيع كل منهما نصيبه شائعا جائز من الشريك والأجنبي

منحۃ الخالق (5/180) میں ہے:

وذكر محمد رحمه الله في فصل غاب أحد شريكي الدار فأراد الحاضر أن يسكنها رجلا أو يؤجرها لا ينبغي أن يفعل ذلك ديانة؛ إذ التصرف في ملك الغير حرام حقا لله تعالى وللمالك ولا يمنع منه قضاء؛ لأن الإنسان لا يمنع عن التصرف فيما في يده لو لم ينازعه أحد فلو أجر وأخذ الأجر يرد على شريكه نصيبه لو قدر وإلا تصدق به لتمكن الخبث فيه لحق شريكه فكان كغاصب أجر يتصدق بالأجر أو يرده على المالك

فتاوی خلیلیہ (1/269) میں ہے:

سوال: بکر نے اپنی حیات میں جو جائداد غیر منقولہ خریدی وہ کچھ اپنے نام سے کچھ اپنے دو پسران کے نام سے جو ابھی نابالغ ہیں خریدی اور ہمیشہ ہر دو جائداد پر بکر قابض رہا اور اس کی آمدنی کرایہ بھی بکر اپنے تصرف میں لاتا رہا، بکر نے جو جائداد نابالغ لڑکوں کے نام سے بیع نامہ کرائی تھی اس کی از سر نو تعمیر و مرمت بکر نے اپنے روپے سے کی جیسے کہ اپنی جائداد کی کرتا تھا، کوئی حساب علیحدہ نابالغان کے نام کا نہیں رکھا۔ بکر تجارت پیشہ تھا اور اس کی تجارت کا مقام کلکتہ میں تھا اور جائداد دوسرے مقام میں تھی، بکر نے جائداد وغیرہ منقولہ کل کی وصیت کرایہ ومرمت وتعمیر از سر نو کا انتظام جن لوگوں کے سپرد کیا تھا انکو بھی بکر کی کوئی ہدایت ایسی نہ تھی کہ ہر دو جائداد کے کرایہ ومرمت وغیرہ کا حساب علیحدہ رکھا جائے، کچھ کرایہ دار از نام نابالغان والی جائداد کے ایسے ہیں کہ جن سے بکر کا تجارتی کاروبار بھی تھا۔ ان لوگوں نے ہمیشہ کرایہ وآمد بکر کے مال کا ایک ہی ساتھ میں بکر کے حساب میں جمع کیا یعنی اپنے بھی کھاتہ میں بکر کے نام سے لکھا اور اس کا روپیہ بھی بکر ہی کو دیا، بکر نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔بکر نے ۱۹۹۰، ۱۹۹۱ میں دو یادداشتیں بطور چٹھہ کے بتائیں اور اس میں کل جائداد اپنی اور جو دو لڑکوں کے نام ہے اس کی قیمت لکھی ہے، اور جو روپیہ نقد از قسم نوٹ تھے وہ لکھے، اور لینا اپنا جو لوگوں کے ذمہ تھا وہ لکھا، بکر ۱۹۱۱ء میں بیمار ہوکر قضائے الٰہی سے شروع  ۱۹۱۲ء میں فوت ہوگیا، اور اپنے وارثان میں چند لڑکے اور لڑکیاں اور زوجہ کو چھوڑا، اب بحکم شرعی وہ جائداد جو دو پسران کے نام سے ہے اسکے وہ دونوں پسران مالک رہے یا کل وارثان پر منقسم ہوگی؟فقط

الجواب الاول از حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مدرسہ عالیہ مظاہر علوم سہارنپور:صورت مسئولہ میں اصل تو یہ ہے کہ دارو مدار عقد کا عاقد کی نیت پر ہے کہ بوقت عقد اگر اس نے نیت خریداری کی اپنے فرزندان نابالغ کے لئے کی تھی تو ان کی ملک ہوگا، اور اگر کسی مصلحت سے فرضی طور پر اپنے نابالغ فرزندان کے نام لکھوایا، اور بوقت شراء اپنے ہی لئے خریدنا مد نظر تھا تو اس صورت میں شے خود عاقد کی ملک ہوگی، لیکن عاقد مرچکا ہے اسکے ارادہ کا حال معلوم ہونا ناممکن ہے لہٰذا اب دار و مدار اس تحریری دستاویز پر ہے جو فی الحقیقہ حکایت اس ایجاب وقبول کی ہے جو بوقت عقد عاقد نے کی تھی، اس دستاویز سے ظاہر ہے کہ عاقد نے اپنے فرزندان نابالغ کی طرف سے بولایت خود کسی چیز کو خریدا ہے اور ان کی طرف سے اس کی قیمت اگر ان کے مال سے ادا کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ مالک ہوگئے اور اگر اپنے مال سے ادا کی ہے تو تبرعاً ان کی طرف سے اس کی قیمت ادا کی ہے، بالجملہ بہر دو صورت وہ فرزندان نابالغ اس شے کے مالک ہوگئے۔۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved