- فتوی نمبر: 34-178
- تاریخ: 13 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے والد کا انتقال 2011ء میں اور والدہ کا انتقال 1997ء میں ہوا۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میرے بھائی نے 2000ء میں ایک عیسائی لڑکی سے کورٹ میرج کی، جو نکاح سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی۔ شادی کے بعد وہ دونوں شارجہ چلے گئے۔ ہمارے تعلقات کئی سال تک منقطع رہے۔
پھربھائی کا 2016ء میں انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کے دو چھوٹے بچے (ایک نو سالہ بیٹی ****اور چارسالہ بیٹا ****) تھے۔ بھائی کی وفات کے بعد ہم شارجہ گئے، تجہیز و تکفین اور قانونی کارروائی مکمل کی۔ کچھ مہینوں بعد بھائی کی بیوہ بچوں سمیت انڈیا آ گئیں اور بنگلور میں مقیم ہو گئیں۔ اس کے بعد تین سال تک ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔
میرے برادر محترم کے انتقال کے چار سال بعد 2020ء میں والد مرحوم کی جو میراث ( جو ایک گھر کی شکل میں) تھی، ہم نے اس کو فروخت کیا اور اس کی رقم میں بہنوں کا جو شرعی حصہ بنتا تھا وہ چاروں بہنوں کو دے دیا گیا،باقی بھائی کے انتقال کے بعد بھابھی تین سال تک لاتعلق رہیں،اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی عمل نہیں کیا،اور اس کے بہن بھائیوں کی عیسائیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مرحوم بھائی کے حصہ کی رقم سے تین پلاٹ خریدے، جو میرے اور میری اہلیہ کے نام پر ہیں ،پلاٹ خریدنے کے بعد جو تھوڑی بہت رقم ان کی موجود تھی ، اسے ہر مہینہ پندرہ ہزار روپے بھابھی کے اکاؤنٹ میں جو Nireekshana کے نام سے ٹرانسفر کرتے رہے، ان کے پیسے ختم ہونے کے بعد میری دو بہنیں اور میں تینوں پندرہ ہزار روپے بھیجتے رہے۔
جنوری 2024ء میں بہنوں نے کہا کہ ہمارا دینا مشکل ہے، تھوڑی ترغیب پر بہنیں تیار ہوئیں اور جنوری2024ء سے بھابھی اور بچوں کے لیے قرض تصور کر کے ہر مہینہ پندرہ ہزار روپے بھیجے جاتے رہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ، اس پر وہ بہت شکر یہ بھی ادا کرتے ہیں ، اور دو تین مرتبہ بنگلور سے ہمارے یہاں آنا ہوا، اگر ہر مہینہ پیسے بھیجنا بند کر دیں تو ہمارا گمان ہے کہ وہ ترکہ پوچھیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو پیسے میں نے ان کو بھیجے ہیں اس میں قرض کا ذکر نہیں کیا جبکہ میری نیت قرض کی تھی جبکہ بہنوں کی نیت محض تعاون کی تھی تو کیا یہ پیسے میں ان کی میراث میں سے کاٹ سکتا ہوں؟
اِس وقت رقم بھیجنا مشکل ہو رہا ہے ،میرے ذہن میں ہے کہ ان کے ایک پلاٹ کو فروخت کر کے اس کی رقم کو جہاں مجھے پورا اطمینان ہے، پاٹنر شپ میں کاروبار میں لگادوں؛ تاکہ ہمارے لیے بھی عافیت ہو اور ان بیوہ اور یتیموں کی بھی کچھ مدد ہو جائے۔اس تمام صورتِ حال میں براہ کرم ہماری راہ نمائی فرمائیں ۔
نوٹ: اس وقت بھتیجے کی عمر 17 سال ہے اور سمجھدار ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کا کاروباری تجربہ نہیں اس لیے وہ یہ رقم ضائع کردے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کے لیے زمین کو بیچ کر اسکے پیسوں کو کاروبار میں لگانا تاکہ بچوں کا فائدہ ہو جائز نہیں اور چونکہ بچے اب بالغ اور سمجھدار ہو چکے ہیں تو ان کی زمین ان کو سپرد کرنی ضروری ہے البتہ اگر بچے خود اجازت دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
نیز جو پیسے آپ نے اپنی بھابھی کو دیے ہیں اس کا مطالبہ کرنا آپ کے لیے جائز نہیں کیونکہ قرض نہ انہوں نے آپ سے مانگا ہے اور نہ ہی آپ نے قرض کہہ کر دیا ہے۔
توجیہ: نابالغ بچے کے مال کو کاروبار میں لگانے کے لیے باپ دادا یا ان کا مقرر کردہ کوئی شخص(جسے وصی کہا جاتا ہے) یا قاضی کی اجازت کا ہونا ضروری ہے لہذا چچا کو جب بچے نابالغ تھے تب بھی ان کے پیسوں کو کاروبا میں لگانے کی اجازت نہ تھی چہ جائیکہ جب بچے بالغ ہو چکے ہوں۔
شامی (5/616) میں ہے:
وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ
الموسوعۃ القواعد الفقہیۃ (8/868) میں ہے:
قاعدة: [لا يرجع فيما تبرع عن الصغير] فمن دفع مالا عن غيره بغير اذنه او امره فلا حق له في الرجوع على من دفع عنه لانه متبرع.
من أمثلة هذه القاعدة ومسائلها:إذا دفع وأدّى دين غيره بغير إذنه، ثمّ طالبه بما دفع، فلا حقّ له، وليس للمدفوع عنه أداء ما دفع، لأنّ الدّفع بغير إذن تبرّع، والمتبرّع لا يرجع
ہندیہ (5/54) میں ہے:
وذكر في مأذون شرح الطحاوي يجوز إذن الأب والجد ووصيهما وإذن القاضي ووصيه للصغير في التجارة وعبد الصغير، ولا يجوز إذن الأم للصغير وأخيه وعمه وخاله.
ہدایہ (2/294) میں ہے:
وإن كان له مال في يد أجنبي فأنفق عليهما بغير إذن القاضي ضمن ” لأنه تصرف في مال الغير بغير ولاية لأنه نائب في الحفظ لا غير بخلاف ما إذا أمره القاضي لأن أمره ملزم لعموم ولايته وإذا ضمن لا يرجع على القابض لأنه ملكه بالضمان فظهر أنه كان متبرعا به.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved