• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ مکان میں تعمیر کی گئی منزل کا کرایہ اور اس میں حصہ

استفتاء

گزارش ہے کہ دو چیزوں کی بابت فتوی لینا ہے۔ میں نے والد صاحب کی وفات (2011) کے  بعد  اپنے والد صاحب کے مکان کے اوپر ایک منزلہ مکان  والدہ محترمہ اور دوسرے بھائیوں کی اجازت سے بنایا تھا ۔ہم چار بھائی ہیں ایک بھائی نے تھوڑا اعتراض کیا مگر والدہ محترمہ اور دوسرے بھائیوں کے سمجھانے پر وہ بھی خاموش ہو گئے اور اس طرح والدہ محترمہ اور دوسرے بھائیوں کی اجازت کے ساتھ یہ مکان اوپر تعمیر ہو گیا ۔ ہم کو اخراجات کے مسائل تھے اس لیے یہ مکان اوپر بنا دیا تاکہ  اس کے کرایہ سے کچھ پیسوں کا مسئلہ حل ہو جائے ۔کچھ عرصہ مکان کرایہ پر دینے کے بعد وہ خالی ہو گیا مگر تیسری منزل ہونے کی وجہ سے یہ مکان کرایہ پر نہیں چڑھتا تھا ۔پھر اسی مکان کو میں نے جو والد صاحب کے مکان کے اوپر بنایا تھا پانچ لاکھ روپے میں گروی دے دیا۔ اس مکان کو گروی دینے میں ہم چاروں بھائی رضامند تھے ان کو اس کے گروی دینے کے ہر مسئلہ مسائل کا علم تھا اس وقت اس مکان کا کوئی کرایہ نہ تھا کچھ عرصہ بعد یہ مکان دوسری پارٹی نے گروی لیا تو ہم نے ہزار  روپے کرایہ کا مطالبہ کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد یہ مکان  ایک اور  پارٹی نے ہم سے گروی لیا۔تو اس پارٹی سے ہم نے کرایہ2000 یا2500  روپے لینا  شروع کیا۔ اس دوران جب بھی نیا کرایہ دارآتا تو میں مکان مرمت خود کرواتا اور پھر ہر بار  ڈیلر کو کمیشن بھی دیتا،   اس مکان کو بنانے  میں پانچ لاکھ 40 ہزار کی رقم  لگی۔جو کہ میں نے خود لگائی اس مکان کو بنانے میں میرے بھائیوں کا یا میرے والد صاحب کا کوئی روپیہ نہیں لگا۔ جو لگایامیں نے خود لگایا اور اب 2025 چل رہا ہے اس مکان میں جو نفع نقصان ہوا میں نے خود ہی برداشت کیا اور اس مکان کی گروی کی  رقم کا بھی میں خود ہی ذمہ دار ہوں جو کہ میں نے دینی ہے ۔گھر کےحالات خراب تھے میں کاروبار کرنے کے لیے پانچ لاکھ روپے  کی رقم لےکر ملتان چلا گیا تاکہ میرے دوسرے بھائی  سیٹ ہو جائیں  مگر وہاں پر بھی مجھے نقصان ہوا جو کہ کسی بھائی کا نقصان نہ ہوا جو کچھ ہوا میرا نقصان ہوا ۔ اب  2025 چل رہا ہے اس مکان کا کرایہ  پانچ ہزار روپیہ ہو گیا ہے  ۔میرا ایک بھائی جس  کو مکان بنانے پر  بھی اعتراض تھا  اور بھائیوں اور والدہ محترمہ  کے سمجھانے پر مان گیا تھا اب وہ کہتا ہے  کہ اس کرایہ کی رقم کو چاروں بھائیوں میں تقسیم کرو جبکہ اس وقت سارے بھائی خود مختار اور اچھا کھاتے پیتے ہیں اور  یہ بھی کہتا ہے کہ یہ  اوپر والا مکان وراثت میں آتا ہے اور تم نے اس کو بنانے میں پانچ لاکھ 40 ہزار روپیہ لگایاتھا تم نے اس سے  کچھ عرصہ میں ڈھائی لاکھ روپیہ کی رقم واپس لے لی ہے اس طرح یہ مکان وراثت میں شامل ہو گیا ہے  تمہارا اس مکان میں کوئی حصہ نہیں ۔اب بتائیے اس مکان کا نفع نقصان  کا میں خود ذمہ دار ہوں جوگروی کی رقم پانچ لاکھ لی تھی وہ بڑھ کر آٹھ لاکھ روپے ہو گئی ہے  جو کہ میں نے دینی  ہے ۔اب مجھے بتائیں کہ:

1۔جب یہ والد صاحب کا مکان بکے گا تو میرے مکان کا حصہ مجھے  ملے گا جو کہ میں نے اوپر بنایا تھا ؟ اور کس طرح ملےگا۔؟

2۔اس مکان کے کرایہ میں میرے بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں جو ایک منزلہ مکان سائل نے اپنے  خرچے سے دیگر ورثاء کی رضامندی سے تعمیر کیا تھا وہ سائل کا ہے لہذا اس کی قیمت سائل کو  دی جائے گی  جس  کا طریقہ یہ ہے کہ پورے مکان کی دو قیمتیں لگائی جائیں گی ایک قیمت اوپر والی منزل کی تعمیر کے ساتھ اور دوسری قیمت اوپر والی منزل کی تعمیر کے بغیر۔ دونوں قیمتوں میں جو فرق ہوگا وہ فرق والی قیمت تعمیر کرنے والے کودے دی جائے گی۔

2۔ جو تعمیر سائل نے اپنے خرچے سے کی ہے اس  کا کرایہ سائل کو ملے گا باقی بھائیوں کا اس میں حق نہیں۔

الدر المختار  مع ردالمحتار(8/556) میں ہے:

 (‌ولو ‌أعار ‌أرضا للبناء والغرس صح) للعلم بالمنفعة (وله أن يرجع متى شاء) لما تقرر أنها غير لازمة (ويكلفه قلعهما إلا إذا كان فيه مضرة بالأرض فيتركان بالقيمة مقلوعين) لئلا تتلف أرضه.

قوله مقلوعين) ‌أو ‌يأخذ ‌المستعير غراسه وبناءه بلا تضمين المعير هداية، وذكر الحاكم أن له أن يضمن المعير قيمتها قائمين في الحال، ويكونان له، وأن يرفعهما إلا إذا كان الرفع مضرا بالأرض، فحينئذ يكون الخيار للمعير كما في الهداية.

الدر المختار (9/49) میں ہے:

 (و) تصح إجارة أرض (للبناء والغرس) وسائر الانتفاعات كطبخ آجر وخزف ومقيلا ومراحا حتى تلزم الأجرة بالتسليم ‌أمكن ‌زراعتها أم لا بحر (فإن مضت المدة قلعهما وسلمها فارغة) لعدم نهايتهما (إلا أن يغرم له المؤجر قيمته) أي البناء والغرس (مقلوعا) بأن تقوم الأرض بهما وبدونهما فيضمن ما بينهما اختيار (ويتملكه) بالنصب عطفا على ” يغرم “؛ لأن فيه نظرا لهما.

نوٹ: فریق اول نے فریق ثانی کے دو نمبر دیئے جن سے مختلف اوقات میں رابطہ کیا گیا لیکن دونوں نمبر بند تھے۔ لہذا فریق اول کے بیان کو سامنے رکھ کر جواب لکھا گیا چنانچہ اگر فریق دوم کا بیان مختلف ہوا تو یہ جو اب  کالعدم شمار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved