- فتوی نمبر: 34-191
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
زید کا بیان :
والد کی وراثت کے بارے میں راہنمائی درکار ہے، ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب کے 3 گھر اور دو دکانیں تھیں، میری والدہ نے میرے مرحوم والد کا ایک گھر 12 لاکھ میں بیچ کر اس میں سے آٹھ لاکھ مجھے دیئے اور باقی چار لاکھ کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ والدہ نے ان کا کیا کیا؟ میں نے ان آٹھ لاکھ سے ایک مکان خرید اجو کہ خستہ حالت میں تھا بعد میں وقتا فوقتا میں اس پر اپنی طرف سے پیسے لگاتا رہا۔ اسی طرح ایک دکان جو والد کے نام تھی وہ والدہ نے اڑھائی لاکھ روپے کی بیچ کر سارے پیسے بہن کی شادی میں لگا دیے۔ اب میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے ۔
میں اپنی بہنوں کو اس گھر میں سے کتنا حصہ دوں ؟ آٹھ لاکھ میں سے یا موجودہ مکان میں سے جس پر میرا ذاتی خرچہ بھی ہوا ہے اگر مکان میں سے حصہ دینا ہے تو کس طرح اور کتنا دوں ؟
عمر کا بیان :
میری والدہ نے ایک عدد گھر جو میرے مرحوم والد کے نام تھا اس کو بیچ کر دوسری جگہ 1999 میں ساڑھے چار مرلے کا گھر اپنے نام لیا۔ 2001 میں میں اس گھر میں شفٹ ہو گیا چونکہ گھر خستہ حال تھا اس پر میں نے ذاتی پونجی لگا کر اسے قابلِ رہائش بنایا۔ 2007 میں والدہ نے یہ مکان مجھے ہبہ کر کے میرے نام رجسٹری کر دی۔ 2020 میں، میں نے تمام پونجی لگا کر اس کو نئے سرے سے نئے نقشے کے مطابق بنایا۔
ایک گھر والدہ نے بھائی ضیاء اور بھائی خالد کے نام کیا تھا، بھائی ضیاء کی جب شادی ہو رہی تھی تو ان کے سسرال والوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ ہماری بیٹی کے نام گھر لکھوایا جائے، تو میری والدہ نے اور بھائی ضیاء نے جن کی شادی تھی اور میری دو بہنوں نے انگوٹھے لگا کر وہ گھر ضیاء کی بیوی کے نام کر دیا، حالانکہ ہم نے ان کو سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کریں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہماری نہ مانی اور ضیاء کی بیوی کے نام وہ آدھا مکان کر دیا جس میں ضیاء رہتا تھا، بعد میں اس بیوی نے ضیاء سے طلاق لی اور وہ گھر بیچ کر چلی گئی۔
اب میں اپنے مکان میں سے اپنی بہنوں کو حصہ دینا چاہتا ہوں میری رہنمائی کیجئے میں کتنا حصہ دوں اور کس طرح دوں؟
بہنوں کا بیان:
ہمارے والد صاحب تین گھر اور ایک دکان میراث میں چھوڑ کر گئے، امی کو نانا کی طرف سے ایک عدد زرعی زمین ملی تھی، امی نے نانا کی طرف سے ملی ہوئی زمین بیچ کر ہمارے والد کی طرف سے میراث میں ملے گھروں کو تعمیر کیا اور باقی پیسے دو بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی میں لگا دیئے۔ گھروں کی تفصیل یہ ہے کہ تین گھر تھے ایک گھر بیچ کر اس کے پیسے بھائی زید کو دے دیے اور دوسرا گھر بھائی عمر کو دے دیا اور تیسرا گھر بھائی ضیاء اور بھائی خالد کو دے دیا کہ آدھا ایک بھائی کا ہو جائے اور آدھا دوسرے بھائی کا۔والدہ نے جب گھر بھائیوں کو دیے تو بتایا کہ جو دکان ہے اس میں سے پہلے اپنی بہنوں کو حصہ دینا جتنا ان کا کل میراث یعنی تین گھروں اور ایک دکان میں بنتا ہے۔ اس کے بعد اگر دکان کے پیسوں میں سے پیسے بچے تو اپنا حصہ لے لینا۔ لیکن اب بھائی کہتے ہیں کہ گھر تو والدہ نے ہمیں اپنی زندگی میں دے دیے تھے لہذا ان میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے اور دکان چونکہ والد صاحب کے نام پر ہے لہذا اس میں جتنا حصہ آپ بہنوں کا بنتا ہے وہ آپ کو دے دیتے ہیں جبکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمار ا جتنا حصہ ہمارے والد صاحب کے کل ترکہ میں بنتا ہے وہ ہمیں دیا جائے۔
اور ہم نے گھر ضیاء کی بیوی کے نام اس لیے کیا کہ ہمیں اس وقت والدہ اور بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ آپ انگوٹھے لگالو اور دکان میں جو ضیاء کا حصہ ہے وہ آپ دونوں کو ملے گا اس وجہ سے ہم نے انگوٹھے لگائے۔ اور جس دکان کا بھائی زید نے ذکر کیا اس کے پیسوں سے صرف ہماری شادی نہیں ہوئی بلکہ ان پیسوں سے دو بھائیوں کی بھی شادی ہوئی ہے۔اب ہمارا حصہ صرف دکان میں ہے یا گھروں میں بھی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بہنوں کا جتنا حصہ والد کے کل ترکہ یعنی تینوں گھروں میں اور دکان میں بنتا ہے اسی کے حساب سے انہیں حصہ دیا جائے گا اور مکانوں کی وہ قیمت معتبر ہوگی جو اس وقت تھی جس وقت یہ مکان بیٹوں کو دیے گئے تھے، تاہم بہنوں کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اُس وقت کی قیمت لے لیں جس وقت مکان بیٹوں کو دیئے گئے تھے اور چاہیں تو اُس قیمت کا اتنا سونا یا چاندی لے لیں جتنا سونا یا چاندی مکان بیٹوں کو دیتے وقت ان پیسوں کا آتا تھا۔
توجیہ: والدہ نے جو تصرفات کیے تھے وہ اس بنیاد پر کیے تھے کہ بیٹیوں کا مکانوں میں جو حصہ ہے وہ دکان میں سے دیا جائے اور بیٹیاں اس وقت اس پر راضی بھی تھیں لہٰذا مذکورہ صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ بیٹیوں نے مکانوں میں اپنا حصہ اپنے بھائیوں کو بیچ دیا ہے اور مکانوں میں اپنے حصوں کی قیمت دکان کی قیمت میں سے لینے پر راضی ہوگئیں ، لہٰذا بھائیوں کو چاہیے کہ وہ دکان میں سے یا اپنے پاس سے بہنوں کے مکانوں میں حصے کی قیمت ادا کریں اور باقی ماندہ قیمت کو سب بہن، بھائی اپنے اپنی شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved