- فتوی نمبر: 34-71
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > اجارہ علی المعاصی
استفتاء
حجام (نائی) کو دکان کرائے پر دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس حجام (نائی) کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ اس دکان میں خلاف شرع حجامت بنائے گا اور لوگوں کی داڑھیاں مونڈے گا ایسے حجام نائی کو دکان کرائے پر دینا ناجائز ہے اور جس کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہو یا غالب گمان نہ ہو کہ وہ اس میں خلاف شرع حجامت بنائے گا اور لوگوں کی داڑھیاں مونڈے گا ایسے حجام (نائی) کو دکان کرائےپر دینا جائز ہے۔
ہندیہ (4/449) میں ہے:
إذا استاجر الذمی من المسلم بیتا لیبیع فيه الخمر جاز عند ابی حنفية رحمه الله خلافا لهما
فتاوی رشیدیہ(2/213) میں ہے:
سوال:مکان وغیرہ ایسے لوگوں کو کرایہ پر دینا کہ جو شراب و دیگر محرمات اس میں فروخت کرتے ہوں یا خود افعال خلاف شرع ممنوعات اس میں کریں یا کفار کہ وہ اس میں بت پرستی کریں منع اور داخل اعانت علی المعصیت ہوگا یا نہیں؟
جواب : ایسے کو کرایہ پر دینا مکان کا درست نہیں حسب قول صاحبین کے اور امام صاحب کے قول سے جواز معلوم ہوتا ہے کہ مکان کرایہ پر دینا گناہ نہیں گناہ بفعل اختیاری مستاجر کے ہے مگر فتوی اسی پر ہے کہ نہ دیوے کہ اعانت گناہ کی ہے ۔لا تعاونوا على الاثم والعدوان.
فتاوی حقانیہ (6/277) میں ہے:
سوال: کیا کسی نائی(حجام) کو دوکان وغیرہ کرایہ پر دینا جائز ہے؟جب کہ یہ لوگوں کی داڑھی مونڈتے اور بال یہودیوں کی طرح بناتے ہیں حالانکہ ارشاد قرآنی ہے: ولا تعاونوا على الاثم والعدوان الخ (یعنی گناہ کے کاموں میں کسی سے تعاون نہ کرو) اس لحاظ سے کسی نائی حجام کو دوکان وغیرہ کرایہ پر دینے والا تعاون علی المعصیت کا مرتکب تو نہیں ہوگا ؟تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب: حجامت کا پیشہ ایک ضروری عمل ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن اس میں شرعی حدود و قیود کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے اگر اس میں خلافِ شرع عمل کیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ناجائز ہوتی ہے اسی طرح اس کام (حجامت وغیرہ) کے لیے دوکان یا مکان کرایہ پر دینا بھی تعاون علی المعصیت ہے جو بنص قرآنی حرام ہے لہذا خلاف شرع حجامت بنانے والے نائی حجام کو مکان یا دکان کرائے پر دینا صحیح نہیں اور نہ اس کی آمدنی درست ہے۔
کفایت المفتی (7/370) میں ہے:
سوال: کیا مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ فاحشہ عورتوں کو اپنے مکانوں یا دکانوں میں کرائے پر آباد کرے باوجود اس علم کے کہ یہ عورتیں زنا کاری کا پیشہ کرتی ہیں انہیں اپنے مکانوں میں آباد کرنا اور کرایہ کھانا کیسا ہے؟ بعض لوگ اسی غرض سے مکان لیتے ہیں اور اور رنڈیوں کو ان میں رکھتے ہیں اور کرایہ لیتے ہیں اسی طرح شراب یا خزیر کا گوشت بیچنے والے کو دکان کرائے پر دینا کیسا ہے؟
جواب: زانیہ عورتوں کی زنا کی کمائی ان کی ملک میں داخل نہیں ہوتی اور اس لیے ان کو خود بھی اس کا استعمال کرنا حرام ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی وہ روپیہ ان سے لینا خواہ بطور کرایہ کے ہو یا بطور قیمت یا ہبہ کے جائز نہیں………. الخ
پس رنڈیوں کو اپنے مکان میں رکھنا اور ان کا حرام مال کرائے میں لینا کسی طرح جائز نہیں ہے اس کے علاوہ زنا چونکہ ایک سخت کبیرہ گناہ ہے اس لیے رنڈیوں کو اپنے مکان میں آباد کرنا گویا ان کی ایک کبیرہ گناہ پر اعانت کرنا ہے جو حرام ہے قال الله تعالى: “تعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان“اسی طرح شراب بیچنے والے کو دکان کرنے پر دینا انہی وجوہ سے ناجائز ہے ۔
ہاں اگر شراب بیچنے والا مسلمان نہ ہو اور مسلمانوں کی آبادی بھی اس بستی میں زیادہ نہ ہو بلکہ زیادہ تر کفار ہی آباد ہوں تو شراب بیچنے والے کافر کو دکان کرائے پر دینا جائز ہے لیکن زانیہ کو مکان کرائے پر دینا کسی حال میں جائز نہیں۔ وجاز إجارة بيت بسواد الكوفة لا بغيرها على الاصح ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر (تنوير الابصار) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعى (رد المحتار) اور یہی حکم خنزیر کا گوشت بیچنے والے کو دکان کرائے پر دینے کا ہے ۔
فتاوی رحیمیہ (2/292) میں ہے:
جواب: جانتے ہوئے ایسے بدکاروں کو کمرہ کرایہ پر دینا اعانت علی المعصیت کی وجہ سے درست نہیں ہے۔
فتاوی مفتی محمود(9/337) میں ہے:
بینک والوں کو بلڈنگ کرایہ پر دینا اور طوائفوں کو مکان کرایہ پر دینا
ان مسائل میں اختلاف ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ اجارہ جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک یہ اجارہ ناجائز اور اجرت لینا درست نہیں۔اس لیے بلاضرورت شدیدہ اس میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔اگرچہ نفس عقد جائز ہے مگر بوجہ اعانت علی المعصیۃ اس معاملہ میں احتیاط کرنا لازم ہے۔إذا استأجر رجلا ليحمل له خمرا فله الأجر في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى لا أجر له (عالمگیری ) مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ فتاوی رشیدیہ ص502 میں لکھتے ہیں:ایسے لوگوں کو کرایہ پر مکان دینا درست نہیں۔بقول صاحبین کے اور امام صاحب کے قول سے جواز معلوم ہوتا ہے کہ مکان تو کرایہ پر دینا گناہ نہیں گناہ بفعل اختیاری مستاجر کے ہے۔مگر فتوی اسی پر ہے کہ نہ دیوے کہ اعانت گناہ کی ہے۔ولاتعاونوا على الاثم والعدوان(فتاوی رشیدیہ)”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved