• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کا اپنی بیٹیوں کو کچھ مال ہبہ کرنا اور بیٹے کو عاق کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں  علمائے کرام اس بارے میں کہ میرے والد صاحب میرے پاس قیام پذیر تھے ان کی وفات ہو چکی ہے۔  انہوں نے اپنی زندگی میں 2,00000 (دو لاکھ)  میرے پاس رکھوائے تھے کہ یہ سب پیسے میری بیٹیوں کے ہیں۔ یہ بات کئی دفعہ سب گھر والوں کے سامنے والد نے کہی تھی بلکہ ایک دفعہ مجھے قرض کی ضرورت تھی  تو میں نے ابو سے کہا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے کیا میں یہ پیسے استعمال کر لوں تو ابو نے کہا کہ یہ تم بہنوں کے ہیں اس لیے تم باقی بہنوں سے پوچھ لو تو میں نے باقی بہنوں  سے پوچھ لیا تھا البتہ اب  وہ پیسے بہنوں میں تقسیم کر دیے ہیں ۔

بیٹے کی غلط عادات و صحبت کی وجہ سے انہوں نے اس کو عاق نامہ دیاتھا اور ہم چار بہنیں ہیں ہم چاروں کو انہوں نے بارہا یہ فرمایا تھا سب کچھ تم لوگوں کا ہے۔ اس میں میرے بیٹے کا کوئی حق نہیں انکی مالیت میں 2 لاکھ کے علاوہ کچھ پیسے اور تھے۔ جوانہوں نے فرمایا تھا کہ یہ میرے کفن دفن کے لیے ہیں  ان پر کسی کا کوئی حق نہیں یہ 70 ہزار روپے تھے۔ ان میں سے جو کفن دفن سے بچے تھے میں نے اُن کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ  کر دیئے ۔ اُن کے کچھ کپڑے جو تیاں ایک فریج روم کولر تھا آپ میری راہنمائی فرمائیے کہ کیا ان تمام چیزوں میں بھائی کا حصہ بنتا  ہے یا نہیں؟  ابو جان کی وصیت کا شرعی حکم کیا ہے؟  اس کا جواب مجھے لکھ کر دیجئے گا تا کہ میں سب بہن،   بھائیوں  کو دکھا سکوں اور مال کی تقسیم شرعی طریقے سے ہوسکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو رقم والد نے آپ کے پاس رکھوائی تھی  چونکہ  اس کے بارے میں یہ   کہہ دیا تھا کہ یہ سب میری بیٹیوں کے ہیں  لہذا  یہ پیسے بیٹیوں کے شمار  ہوں گے ، نیز  مذکورہ صورت میں اگرچہ باقی بہنوں کی طرف سے قبضہ نہیں پایا گیا لیکن چونکہ مالکیہ کے نزدیک ہبہ میں قبضہ شرط نہیں ہے نیز  ہمارے عرف میں لوگوں کو ہبہ کے مسائل  کا  علم نہیں اگر باپ کو معلوم ہوتا تو باقاعدہ قبضہ میں بھی دے دیتا۔ لہذا آج کل ضرورت کی بناء  پر  مالکیہ  کے قول کو لیا جا سکتا ہے لہذا  ان پیسوں  میں وراثت جاری نہ ہوگی بلکہ وہ رقم بیٹیوں کی ہے اور جو رقم والد  نے کفن دفن کے لیے رکھوائی  تھی  اس میں سے جو رقم بچ گئی تھی اس میں سب  ورثاء کا حق تھا یعنی اس میں  بیٹے کا بھی حق تھا جس کو والد نے  عاق کردیا تھا    کیونکہ عاق  کرنے سے بیٹا وراثت سے محروم نہیں ہوتا  لہذا ورثاء میں سے جو جو وارث معاف کر دے گا اس کے حصے کے بقدر تو معاف ہو جائے گا لیکن جو وارث معاف نہیں کرے گا اس کو اس کے حصے کے بقدر رقم دینا ضروری ہوگا  اور یہ رقم اس کے ذمہ ہوگی جس نے یہ رقم خرچ کی  ہے۔ اسی طرح والد کی  ملکیت کی دوسری چیزیں مثلاً  فریج ،کپڑے، جوتیاں وغیرہ ان میں  بھی دیگر ورثاء کی طرح بیٹا  بھی حصہ دار ہے لہذا ان چیزوں کو یا تو فروخت کر کے قیمت  ورثاء میں ان کے حصوں  کے بقدر  تقسیم  کردی  جائے یا  باہمی رضامندی سے کوئی ایک وارث وہ چیزیں رکھ کر دوسروں کو ان کے حصہ کی قیمت دےدے۔

بدائع الصنائع (6/115) میں ہے:

فالإيجاب ‌هو ‌أن ‌يقول الواهب وهبت هذا الشيء لك أو ملكته منك أو جعلته لك أو هو لك أو أعطيته أو نحلته أو أهديته إليك أو أطعمتك هذا الطعام أو حملتك على هذه الدابة ونوى به الهبة

ہندیہ (4/375) میں ہے:

أما الأول فكقوله: وهبت هذا الشيء لك، ‌أو ‌ملكته ‌لك، أو جعلته لك، أو هذا لك، أو أعطيتك، أو نحلتك هذا، فهذا كله هبة

شامی (9/334) میں ہے:

لا ‌يجوز ‌التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته

شرح المجلہ (4/14) میں ہے:

كل واحد من الشركاء فى شركة الملك اجنبى فى حصة الآخر ليس واحد وكيلا عن الآخر فلا يجوز تصرف احدهما فى حصة الآخر بدون إذنه

الموسوعۃ الفقہیہ (12/172) میں ہے:

وعند المالكية: تملك الهبة ‌بالقبول على المشهور، وللمتهب طلبها من الواهب إن امتنع ولو عند حاكم، ليجبره على تمكين الوهوب له منها

مسائل بہشتی زیور (2/332) میں ہے:

امام مالکؒ کے نزدیک ہبہ میں قبضہ کرنا  ہبہ میں کسی طور سے بھی شرط نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved