- فتوی نمبر: 34-199
- تاریخ: 16 دسمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > گناہ کے کاموں میں استعمال ہونے والی اشیاء کی خرید و فروخت
استفتاء
ہماری اردو بازار میں کتابوں کی دکان ہے جس میں ہم ڈرائنگ کی کتابیں بھی بیچتے ہیں ان کتب میں جاندار کی تصاویر بنی ہوتی ہیں بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ ساری کتاب کسی کارٹون یا گڑیا کے مختلف پوز پر مشتمل ہوتی ہے اس کتاب کے ہر صفحے پر بڑی تصویر کے علاوہ خالی جگہ کم ہی ہوتی ہے ان کتابوں میں بچے رنگ بھرتے ہیں ہماری ہول سیل کی دکان ہے اور ہمارے گاہک سکول والے اور چھوٹے دکاندار ہیں اگر ہم یہ کتابیں نہ رکھیں تو سکول والے دیگر کتابیں بھی دوسرے دکان داروں سے خرید لیتے ہیں تو کیا اس صورت میں مذکورہ کتابوں کوبیچنے کی گنجائش ہے؟نیز ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ جس چیز میں تصویر اصلا مقصود نہ ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ کتابوں میں رنگ بھرنے کا طریقہ سکھانا مقصود ہوتا ہے تصویر مقصودنہیں ہوتی اس اعتبار سے ان کتابوں کی خریدو فروخت کی گنجائش ہوگی ؟
نوٹ: جاندار کی تصاویر پر مشتمل مذکورہ ڈرائنگ کی کتب کسی سکول کے نصاب میں شامل نہیں ہیں بلکہ غیر نصابی کتابوں میں سے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جاندار کی تصاویر پر مشتمل ڈرائنگ کی مذکورہ کتب فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
توجیہ: مذکورہ کتب میں تصویر اصل مقصود ہے کیونکہ ان تصویروں میں رنگ بھرنا مقصود ہوتا ہے لہذا جاندار کی تصاویر ہونے کی وجہ سے مذکورہ کتب کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے باقی رہا یہ عذر کہ آپ کے خریدار پھردوسری دکانوں سے خریداری کر لیں گے تو اس کے حل کے لیے آپ کو چاہیے کہ جانداروں کے علاوہ دیگر تصاویر پر مشتمل کتب بنا لیں جو اچھی بھی ہوں اور بچوں کے لیے جاذب نظر بھی ہوں۔اس سے آپ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور شریعت کے اعتبار سے لوگوں کو جائز متبادل بھی مل جائے گا۔
کفایت المفتی(9/234)میں ہے:
سوال:بچوں کے کھلونے تصویر والا چھوٹا ہو یا بڑا خواہ کسی شے کا بنا ہوا ہو اس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے بچوں کا باجا یا بانسری بچوں کی جس میں دو سریعنی باریک اور موٹے ان کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : تصویروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں یا اور کسی غرض کے لیے البتہ ایسی اشیاء جن میں تصویرکا بیچنا خریدنا مقصود نہ ہو جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے مگر تصویر کی بیع و شراء مقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے ۔
کفایت المفتی (9/242)میں ہے:
سوال:ایک مسلمان نے بیڑی جاری کی اور اس کے لیبل پر ایک عرب کی تصویر بنائی جس کو دیکھ کر مسلمان اپنی دل آزاری سمجھتے ہیں چنانچہ اس مسلمان بیڑی بنانے والے سے کہا گیا کہ ہمارے مذہب میں تصویر منع ہے اگر تیرا مقصد بیڑی کی تجارت ہی ہے تو اس دل آزار لیبل کو بند کر کے اور کوئی دوسرا لیبل نکال لے اور لیبل کے بند کرنے پر جو بقیہ لیبل کی لاگت کا نقصان ہے وہ ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن باوجود اس کے وہ لیبل بند نہیں کرتا اور بدستور جاری رکھتا ہے ایسی صورت میں اس لیبل کے بنانے والے بیچنے والے اور خریدنے والوں کے متعلق شریعت مقدسہ کیا حکم رکھتی ہے؟
الجواب :تصویر بنانا حرام ہے مگر افسوس کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں نے اپنے تجارتی نشانات میں تصویریں بنائی ہیں اور ان تصویروں کو ٹریڈ مارک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اگر کوئی مسلمان ان ٹریڈ مارکوں کی تصویروں کو موقوف کرانے کے لیے کوئی اقدام خلوص کے ساتھ کرے تو یہ اس کے لیے موجب اجر ہوگا مگر اس میں کسی ایک مارکہ کو اعتراض کے لیے خاص کر لینا خلوص کی دلیل نہیں ہے ایسے مارکے جن پرتصویریں بنی ہوتی ہیں سینکڑوں روزمرہ کی استعمال کی اشیاء یا پر موجود ہیں ہاتھی مارکہ، کاغذ، دیا سلائی کی ڈبیا اور کپڑے کے تھان ،چینی کے برتن، اخبارات و رسائل اور ہزاروں چیزیں ہیں ان کی خریداری کا حکم یہ ہے کہ اگر تصویر کی خریداری مقصود نہ ہو اور تصویر کو اس چیز کی قیمت میں دخل نہ ہو یعنی خود تصویر کی کوئی قیمت اس میں شامل نہ ہو تو ایسی چیزوں کا خریدنا مباح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved