- فتوی نمبر: 34-200
- تاریخ: 16 دسمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
میں پرانے آئی فون موبائل لیتا بھی ہوں اور بیچتا بھی ہوں کچھ موبائل دو تین سال کچھ موبائل پانچ دس سال بھی استعمال شدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب نئے آئی فون ماڈل مارکیٹ میں آتے ہیں تو وہ پرانے آئی فون ماڈل نئے آنے بند ہو جاتے ہیں۔
اب جب ہم پر انے آئی فون ماڈل خریدتے ہیں تو بعض اوقات اس میں مسئلے آتے ہیں جیسا کہ کیمرے کا مسئلہ بیٹری یا سکرین کا مسئلہ یا موبائل میں اور کچھ مسئلہ آجاتا ہے اور موبائل خراب ہو جاتے ہیں تو اس کو میں ریپئرنگ کے ذریعے دوبارہ ریپئر کر تاہوں صحیح طریقے سے۔اب یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ میں جب اس موبائل کو بیچوں گا تو کیا مجھ پر لازم ہے کہ میں کسٹمر کو بتاوں کہ میں نے اس کو ریپئر کیا ہے۔ اگر میں نہیں بتاتا تو کسٹمر کو پتہ نہیں چلے گا کہ یہ ریپئر ہوا ہے۔ کسٹمر کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ تو کیا یہاں میرا اس طرح بیچنا جائز ہو گا کہ نہیں؟ اگر کسٹمر کو بتاتا ہوں تو یہ مشکل سے بکے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ اگر گاہک کو کہہ دیں کہ اچھی طرح دیکھ لیں یا کسی کو دکھوالیں بعد میں، میں عیب کا ذمہ دار نہ ہوں گا تو آپ پر از خود لازم نہیں ہے کہ کسٹمر کو بتائیں کہ یہ موبائل ریپئر کیا ہوا ہے۔ہاں اگر وہ پوچھے کہ مرمت شدہ ہے تو اس کے جواب میں جھوٹ بولنا جائز نہیں۔
ہندیہ (3/94) میں ہے:
البيع بالبراءة من العيوب جائز في الحيوان وغيره ويدخل في البراءة ما علمه البائع وما لم يعلمه وما وقف عليه المشتري وما لم يقف عليه وهو قول أصحابنا رحمهم الله تعالى سواء سمي جنس العيوب أو لم يسم أشار إليه أو لم يشر، ويبرأ عن كل عيب موجود به وقت البيع وما يحدث بعده إلى وقت التسليم في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وقال محمد رحمه الله تعالى: لا يبرأ عن العيب الحادث كذا في شرح الطحاوي.
شامی (5/42) میں ہے:
(وصح البيع بشرط البراءة من كل عيب وإن لم يسم)
قوله: (وصح البيع بشرط البراءة من كل عيب) بأن قال بعتك هذا العبد على أني بريء من كل عيب
امداد الاحکام(3/417) میں ہے:
سوال: میری دکان میں ایسے کپڑے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی عیب ہوتا ہے کسی میں کوئی داغ ہوتا ہے کوئی کسی مقام سے کٹا ہوتا ہے اس لیے یہ ٹکڑے بازار کے تھانوں سے کم نرخ پر بکتے ہیں جو لوگ کپڑے میں تفاوت چاہتے ہیں وہ میرے یہاں خریدنے اتے ہیں ان کو کپڑے کا عیب بتانا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب: بہتر ہے کہ صاف صاف بیان کر دیا جائے اگر اس کی ہمت نہ ہو تو کم از کم یوں کہہ دیں کہ اچھی طرح دیکھ لو بعد میں عیب کا ذمہ دار نہیں جیسا مال ہے سامنے ہے اس کے بعد بھی جو راضی ہو کر خریدے گا تو آپ پر شرعا کتمان عیب کا گناہ نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved