- فتوی نمبر: 31-231
- تاریخ: 22 دسمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > اجارہ علی الطاعات
استفتاء
رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ کی حوصلہ افزائی کے متعلق ڈاکٹر اسحاق عالم صاحب نے انتہائی منصفانہ تجزیہ تحریر فرمایا ہے آپ بھی پڑھیں سو چیں اور عمل کریں۔
ایک کڑوی بات :
ر مضان المبارک میں ایک عرصہ سے یہ مسئلہ اٹھتا ہے کہ تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کو اجرت دینا جائز ہے یا نہیں ؟ دھڑلے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ حرام ہے۔ مجھے اس کی حرمت کے سبب پر آج تک شر ح صدر نہیں ہو سکا۔ بہت آسان سی بات ہے، اگر پانچ وقت کی نماز پڑھانے والا امام تنخواہ لے سکتا ہے تو تر اویح پڑھانے والا حافظ قرآن کیوں نہیں لے سکتا ؟ آپ کو اجرت کے لفظ سے اختلاف ہے تو اس کی جگہ مشاہرہ کا لفظ استعمال کر لیجیے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ نماز اور قرآن کی کوئی اجرت ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ امام نماز کا معاوضہ نہیں بلکہ وقت دینے کا معاوضہ لیتا ہے تو امام کی پانچوں نمازوں میں صرف ہونے والے منٹوں کو یکجا کر لیجیے، تقریبا پون گھنٹہ لگتا ہے لیکن حافظ قرآن کی تراویح میں ؟ ایک سے دو گھنٹے ۔ پھر امام صاحب نماز میں جو تلاوت فرماتے ہیں اس کی تیاری بھی نہیں کرتے۔ مصلی کی طرف جاتے ہوئے اور اکثر تو سورہ فاتحہ پڑھتے وقت کسی سورت کا انتخاب کرتے ہیں لیکن حافظ قرآن ؟ صبح سحری کے وقت سے رات تراویح میں سنائے جانے والے پارے کی تیاری کرنے بیٹھ جاتا ہے ۔ اس دوران اپنی کئی ضرور تیں قربان کر دیتا ہے اور کتنی ذمہ داری کے ساتھ ہر چیز کا خیال رکھتے ہوئے تراویح پڑھاتا ہے ، کیا اسے لفافہ دینا جرم ہے ؟فقہاء لکھتے ہیں کہ ماہ رمضان میں اگر کسی مسجد میں کوئی اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے تیار نہ ہو تو اہل محلہ کو چاہیے کہ کسی کو معاوضہ دے کر اعتکاف میں بٹھا دیا جائے۔ اگر ایک شخص معاوضہ لے کر اعتکاف میں بیٹھ سکتا ہے تو حافظ قرآن اگر تراویح کا معاوضہ لیتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ بہت سے علماء تو اس بارے میں اتنے سخت ثابت ہوئے ہیں کہ معاوضہ یا مشاہر ہ کیا، ہدایا لینے سے بھی ممانعت فرماتے ہیں، اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر آپ قرآن نہ سنا رہے ہوتے تو کیا آپ کو یہ ہدایا ملتے ؟ نہیں نا؟ بس تو یہ بھی قرآن سنانے کے عوض میں ہی مل رہے ہیں، لہذا حرام ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنی بڑی بات بغیر سوچے سمجھے کیسے کر دی جاتی ہے ؟ اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ اگر اس تراویح کے دوران حافظ قرآن کا گلا خراب ہو جائے تو اس کا علاج بھی وہ اپنی جیب سے کرا رہا ہوتا ہے ۔ اور اگر آنے جانے کا پٹرول لگ رہا ہے تو اس کا بوجھ بھی وہ خود اٹھا رہا ہوتا ہے۔ میرے دوستو: ان حافظوں کی حوصلہ افزائی کیجیے، معاوضہ ہو یا ہدایا، خوب اور بھاری بھر کم دیجیے ، ہو سکے تو حج اور عمرے کا پیکج دیجیے، اور قرآن کریم سے محبت کے بدلے میں دیجیے، اس پر اللہ آپ کو ضرور اجر عطا فرمائیں گے۔
اس کا جواب دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
تراویح میں اگر پورا قرآن نہ پڑھا جائے بلکہ چھوٹی سورتوں سے تراویح کی جماعت کرا لی جائے تو اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں جبکہ فرض نمازوں کو اگر باجماعت ادا کرنا کلی طور پر ترک کردیا جائے یا کسی محلہ کی مسجد میں کوئی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو سب اہل محلہ گناہ گار ہوں گے یہی وجہ ہے کہ پانچوں نمازوں کی امامت کے لیے اور اعتکاف کے لیے اگر کوئی بغیر اجرت کے تیار نہ ہو تو یہ کام اجرت دےکر کرائے جا سکتے ہیں تاکہ سب گناہ گار ہونےسے بچ جائیں جبکہ اگر کوئی حافظ اجرت کے بغیر تراویح میں قرآن سنانے پر تیار نہ ہو تو اسے اجرت دے کر تیار کرنا درست نہیں کیونکہ اگر وہ پورا قرآن تراویح میں نہ بھی سنائے اور لوگ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے تراویح کی جماعت کرا لیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔
تبیین الحقائق (5/ 124)میں ہے:
(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) وهو مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم وكان لهم عطيات في بيت المال وافتقاد من المتعلمين في مجازاة الإحسان بالإحسان من غير شرط مروءة يعينونهم على معاشهم ومعادهم وكانوا يفتون بوجوب التعليم خوفا من ذهاب القرآن وتحريضا على التعليم حتى ينهضوا لإقامة الواجب فيكثر حفاظ القرآن، وأما اليوم فذهب ذلك كله واشتغل الحفاظ بمعاشهم وقل من يعلم حسبة ولا يتفرغون له أيضا فإن حاجتهم تمنعهم من ذلك فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بجواز ذلك لذلك ورأوه حسنا، وقالوا الأحكام قد تختلف باختلاف الزمان.
کفایت المفتی (2/359)میں ہے:
سوال :متعلقہ اجرت تراویح؟
جواب:اجرت دے کر قرآن شریف تراویح میں پڑھوانا درست نہیں اگر بے اجرت لیے ہوئے پڑھنے والا نہ ملے تو سورت تراویح پڑھنا بہتر ہے۔
امداد الاحکام(1/526)میں ہے:
سوال : آجکل ایک فصلی حافظ صاحب تراویح پڑھاتے ہیں اور میں بھی اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں یہ یقینی بات ہے کہ بعد ختم کلام مجید حافظ صاحب کی خدمت کی جا وے گی، اور مجھ کو بھی شامل ہونا پڑے گا، ایسی حالت میں میرے لیے تراویح کا پڑھنا ایسے امام کے پیچھے جائز ہے یا نا جائز ؟
الجواب: اگر یہ حافظ قرآن ختم قرآن کی اجرت پہلے سے طے کر لیتا ہے اور یہ شخص اس مسجد میں جہاں تراویح پڑھاتا ہے امام بھی نہیں تو یہ فاسق ہے ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا نہ چاہئے ، بلکہ الم ترکیف سے چند آدمیوں کے ساتھ جدا جماعت کرلی جاوے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو تنہا پڑھ لی جائے، اور اگر یہ شخص پہلے سے اجرت طے نہیں کرتا بلکہ قرآن تراویح میں سنا دیتا ہے، اور بعد تراویح کے لوگ حسب ہمت خدمت کر دیتے ہیں، اور یہ کمی بیشی پر کچھ اعتراض و مطالبہ نہیں کرتا، تو گو اس صورت میں بھی یہ رقم تو اس کو لینا جائز نہیں لکونہ معاوضۃ الختم لان المعروف کالمشروط، مگر شخص کبیرہ نہیں، اس کے پیچھے نماز جائز ہے۔
احسن الفتاوٰی(10/354)میں ہے:
سوال: امامت فرائض کی اجرت لینا جائز ہے، سوال یہ ہے کہ یہ اجرت نماز پڑھانے کی ہے یاحبس وقت کی ہے؟ اگر محض نماز پڑھانے کی اجرت ہے تو جیسے تراویح اور ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی اجرت نا جائز ہے ایسے ہی امامت فرائض کی اجرت نا جائز ہونی چاہیے اور اگر یہ حبس وقت کی اجرت ہے تو تراویح میں بھی حبس وقت ہے، اس کی اجرت بھی جائز ہونی چاہیے؟ بینوا توجروا۔
الجواب :اجرت حبس وقت کی ہے جو امامت فرائض کے لیے جائز ہے، امامت تراویح کے لیے جائز نہیں لعدم الضرورة ، کیونکہ تراویح چھوٹی سورتوں سے بھی پڑھی جاسکتی ہے، نیز بدون اجرت امام نہ مل سکے تو اکیلابھی پڑھ سکتا ہے۔ واللہ سبحان تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved