• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اکٹھی تین طلاقیں دینے کے بعد دس سال اکٹھے رہنے کا حکم

استفتاء

بیوی کا بیان :

محترم قاری صاحب السلام علیکم  !

میں فاطمہ بنت  خالد  حلفیہ بیان دے رہی ہوں کہ میرے خاوند   زید  ولد  بکر  نے مجھے 27 دسمبر کو ایک طلاق کا نوٹس بھیجا ( جو کہ ساتھ لف ہے ) پھر 15 دن بعد صلح کے ساتھ گھر لے آیا پھر 15 دن بعد یعنی 27 دسمبر کے ایک ماہ بعد دوسری طلاق دی  ۔ گواہ  میرے دو بچے  بیٹی *** اور ***اور بھائی *** اور میری دوست بہن **** ہیں ان کے سامنے  یہ الفاظ کہہ کر  طلاق دی کہ ” میری ماں کی قسم میں دوسری طلاق دیتا ہوں ” پھر 27 مارچ کو کہا کہ  “اب تم مجھ پہ حرام ہو  ،اور اس گھر میں رہنا جائز نہیں ، نکل جاؤ  ،میری طرف سے فارغ ہو۔” میں عدت کرنے اپنے بھائی کے گھر  27  مارچ کو چلی گئی ۔دو دن بعد بچیوں کی وجہ سے گھر واپس آگئی عدت  کرنے کے لیے ۔ اب میرے واپس آنے کے اگلے دن ہی میرے خاوند نے کہا کہ میں نے تیسری طلاق نہیں دی۔ میرا اللہ اور اس کے رسول گواہ ہیں کہ تیسری دفعہ کہا کہ  “اب تم حرام ہو ۔ جاؤ ۔ میری بیٹی نے سنا  ۔میں اس انسان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی بس میرے بچوں کا باپ ہے۔آپ میری مدد کر دیں۔

اور میں یہ بات بھی حلفاً بتارہی ہوں کہ میرے شوہر نے آج سے دس سال پہلے بھی ایک دفعہ مجھے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں  ۔ تین دفعہ  یہ الفاظ بولے تھے :  “میں تینوں  طلاق دتی “(میں نے تمہیں طلاق دی )۔  اس واقعہ  کے گواہ چچا  عمر ہیں آپ  ان سے تصدیق کرسکتے ہیں  ۔لیکن پھر میرے شوہر نے کہا کہ میں نے فتوی لے لیا ہے  کہ طلاق نہیں ہوئی۔

تنقیح :دوسری طلاق کے بعد سے  تیسری طلاق کے واقعہ (27 مارچ ) تک   ہم الگ رہ رہے ہیں  اور اس دوران مجھے تین پیرئیڈز(حیض) آچکے ہیں ۔میں ایک  حکیم کی دوائی استعمال کرتی ہوں وہ  گرم ہے اس کی وجہ سے پندرہ دن  بعد ہی پیریڈ ہوجاتے ہیں ۔ تیسرے پیریڈ سے میں 25 مارچ کو فارغ ہوئی ہوں ۔

شوہر کا بیان :

پہلی طلاق  کا نوٹس میں نے  تقریبا ً دوماہ قبل بھیجا تھا ۔ جس کے بعد ہم نے صلح کرلی تھی اور ہم اکٹھے رہنے لگے ۔اس کے کچھ دن بعد میری بیوی نے جھگڑا کیا  اور مجھے برا بھلا کہہ کر مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا  کہ تمہاری ماں کی قسم ہے مجھے طلاق دو ۔ اس پر میں نے کہہ دیا کہ دوسری طلاق دیتا ہوں ۔ اس کے بعد   سے ہماری کوئی صلح نہیں ہوئی ۔دونوں الگ الگ کمرے میں سوتے ہیں ۔ان دو طلاقوں کے علاوہ میں نے نہ طلاق کے الفاظ بولے ہیں اور نہ یہ الفاظ بولے ہیں جو میری  بیوی کہہ رہی ہے بلکہ میں جب اسے سمجھانے کے لیے اس کے پاس جاتا تو مجھے یہی کہتی کہ  تم مجھ پر حرام ہو ،  نامحرم  ہو ، مجھ سے بات نہ کرو ۔

دس سال پہلے تین طلاق کا  کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔ میں اس کی بالکل تردید کرتا ہوں ۔

عمر صاحب کا بیان :

دارالافتاء کی طرف سے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ بیان دیا :

یہ بچی   فاطمہ  میری بیٹی کی طرح ہے ۔ اس کا شوہر  زید میرے پاس کام کرتا ہے ۔ ہمارا پراپرٹی کا کام ہے ۔ یہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے  اس کے شوہر نے تقریبا دس سال پہلے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں میں ان کے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو میں نے سنی تھی ۔ جس کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے فتوی لے لیا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  تقریبا ً دس سال پہلے اگر واقعتاً شوہر نے   بیوی کو تین دفعہ یہ الفاظ کہے تھے  ” میں تینوں  طلاق دتی “(میں نے تمہیں طلاق دی ) جنہیں بیوی نے خود سنا تھا اور جس کا گواہ بھی موجود ہے تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں ۔ اور نکاح ختم ہوگیا تھا  جس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوگئے تھے ۔ اس لیے   بعد میں جب طلاقیں دی گئیں  تو اس وقت  چونکہ بیوی نکاح میں نہیں تھی  لہذا سب  طلاقیں کالعدم شمار ہوں گی ۔ اور اگر شوہر نے اس وقت کوئی طلاق نہیں دی تھی تو  حالیہ طلاق کے واقعات سے دو بائنہ طلاقیں ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا ہے اس کے بعد  اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں البتہ اس صورت میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا ۔

توجیہ : طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ طلاق کے الفاظ خود سن لے تو وہ ان کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے ۔ لہذا بیوی کے بقول تقریبا دس  سال پہلے طلاق کے الفاظ اس نے خود سنے تھے اس لیے وہ تین طلاقیں شمار کرنے کی پابند ہے لیکن اگر شوہر نے  اس وقت کوئی  طلاق  نہیں دی تھی تو جب شوہر نے طلاق کا نوٹس بھیجا ہے تو اس کی عبارت   “لہذا ان حالات و واقعات کی وجہ سے من مقر ۔۔۔۔۔۔۔اپنی آزاد مرضی سے مسماۃ  فاطمہ خالد  کو طلاق اول دیتا ہوں ” سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی تھی پھر اس کے ایک مہینے بعد جب  شوہر نے یہ کہا تھا  کہ ” میری ماں کی قسم میں دوسری طلاق دیتا ہوں ”  تو اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی تھی۔دوسری طلاق کے بعد عدت  (تین ماہواریاں )گزرنے تک شوہر نے مزید طلاق نہیں دی تھی   اور رجوع بھی نہیں کیا تھا لہذا عدت گزرنے سے نکاح ختم ہو گیا تھا ۔

نوٹ : واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں چاہے اکٹھی ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ مجالس میں دی جائیں۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور آئمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح (6/293) میں ہے:

قال النووى “اختلفوا فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي وأحمد وابوحنيفة والجمهور من السلف و الخلف يقع ثلاثا

وفيه وأيضا: وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث .

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 233) میں ہے :

«ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم: الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه، وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد ‌وآخرون ‌كثيرون، عل أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن، ولكنه يأثم»

فتاوی شامی  (3/ 230) میں ہے :

«قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة»

فتاوی شامی  (3/ 305) میں ہے :

وعلمت أن ‌المرأة ‌كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه ….

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(3/ 187) میں ہے :

«وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved