- فتوی نمبر: 31-239
- تاریخ: 22 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
شوہر کا بیان :
میں (***) نے اپنی بیگم (***) کو دو دفعہ لفظی طور پر طلاق دی تھی بوجہ گھریلو لڑائی بمورخہ 24۔01۔29 دو دفعہ کہا تھا کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” اور یہ الفاظ میں نے ایک ہی موقع پر کہے تھے اس کے بعد بیگم ناراض ہو کر گھر چلی گئی تھیں۔ اس کے بعد ہمارا 24۔02۔10 کو رجوع قائم ہوا تھا اور میں بیوی کو گھر لے آیا تھا ، ہم ایک ہفتہ اکٹھے رہے پھر ان کے گھر والوں کی طرف سے ایک شرط کی وجہ سے پھر بحث ومباحثہ بغیر کسی نتائج کے ہوا جس سے بیوی اپنے گھر چلی گئی اور ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا۔میں نے بیگم کے گھر والوں کو ڈرانے کی نیت سے ایک طلاق نوٹس تیار کرواکر بھیجا جس پر نہ ہی میں نے اپنے دستخط کیے اور نہ ہی گواہوں کے دستخط تھے اور نہ ہی اس پر تاریخ درج کر کے مکمل کروایا جس پر بیگم کے گھر والوں کا موقف یہ ہے کہ ہماری طلاق ہو گئی ہے ۔جبکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا سوائے ان کے گھر والوں کو ڈرانے کے۔لہذا مجھے فتوی جاری کیا جائے تاکہ میں اپنی بیگم سے رجوع قائم کر سکوں۔( طلاق کا نوٹس ساتھ لف ہے )۔
بیوی کا بیان :
29 جنوری کو میرے شوہر نے مجھے دو طلاقیں دی تھیں ، الفاظ یہ تھے کہ میں تجھے دو طلاقیں دیتا ہوں۔ اس کے تقریبا دس پندرہ دن بعد ہمارا رجوع ہوگیا تھا ۔ دوبارہ نکاح نہیں کیا تھا ۔ ہم اکٹھے رہنے لگے تھے ۔ ایک ہفتہ اکٹھے رہے تھے کہ پھر لڑائی ہوئی تو انہوں نے ایک طلاق نوٹس تیار کرواکر بھیجا تھا ۔جس پر ان کے دستخط نہیں تھے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں طلاق کے نوٹس کے ذریعہ کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لہذا میاں بیوی کا نکاح قائم ہے ۔
نوت : آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا ۔
توجیہ :شوہر کے یہ الفاظ کہ ” میں تمہیں دو طلاقیں دیتا ہوں ” سے بیوی پر دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی تھیں جس کے بعد دوران عدت رجوع کرلیا گیا اور نکاح قائم رہا ۔ رجوع کرنے کے بعد شوہر نے جو طلاق کا نوٹس بھیجا چونکہ اس پر شوہر نے دستخط نہیں کیے تھے اس لیے یہ شوہر کی طرف منسوب نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم سمجھا جائے گا کیونکہ عرف کے مطابق طلاق کے نوٹس کے شوہر کی طرف منسوب ہونے کے لیے شوہور کا اس پر دستخط کرنا ضروری ہے ۔
ہدایہ (1/ 225) میں ہے :
«الطلاق على ضربين صريح وكناية فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي “»
ہدایہ (2/ 254) میں ہے :
«وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض ” لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها ” والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي ” وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة.قال: ” أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة»
امدادالفتاوی (2/386) میں ہے :
الجواب: اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہےاور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے پس بمنزلہ اس کتاب کے ہے۔بنگالہ کے دستور میں جب بعد نکاح کے دستخط ہوتے ہیں معتبر ہے؛ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر پہلے ہی دستخط کر دے لیکن حوالہ کرے بعد میں وہ بھی معتبر ہے کیونکہ یہ سب عرف میں بمنزلہ انشاء تکلم کے سمجھے جاتے ہیں جو کہ مدار ہے اعتبار کتابت کا فقط واﷲتعالیٰ اعلم و علمہ اتم۔
کفایت المفتی (6/263) میں ہے :
سوال :میری ہمشیرہ عرصہ سے میرے مکان پررہتی تھی اسی ایام میں میرے بہنوئی بشار ت علی نے ہمیشہ جھگڑا فساد کیا اور نوبت تفریق تک پہنچی اسٹامپ کاغذ خود بشارت علی لایا اور لکھا جس وقت کاغذ لکھا جارہا تھا اسوقت بیس پچیس آدمی وہاں موجودتھے کاغذلکھتے لکھتے گود کی لڑکی کاذکر آیا جس پر بشارت علی نے جھگڑا کیا اوراسٹامپ کا غذ ادھورارہ گیا وہ نامکمل کاغذ لیکر اپنے گھر چلا گیا کچھ روز کے بعد دو چار آدمی اوربشارت کے والد اوراحباب میرے گھر جمع ہوئے اورمصالحت ہوئی ہم نے ہمشیرہ کو بشارت کے والد کے ساتھ مع گود کی بچی کے بھیج دیا ایک ماہ بعدپھر جھگڑا فساد مارپیٹ کی گئی اب ہمشیرہ مع بچی کے میرے گھر آگئی ہے اور وہ اسٹامپ کاغذ بھی میرے پاس ہے جس پر نہ بشارت کے دستخط ہیں نہ کسی گواہ کے ۔
جواب :اگر بشارت نے زبانی طلاق دے دی ہو تو طلاق ہوئی زبانی طلاق کی شہادت پیش کرنا عورت کے ذمہ ہے اور زبانی طلاق نہیں دی تھی صرف اسٹامپ لکھا تھا تو یہ اسٹامپ جس پر دستخط نہیں ہیں بیکار ہے اس سے طلاق کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved