• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بچوں کے نصیب مقدر اور روشن مسقبل کے لیے وظائف کرنا

استفتاء

ذہین اور کامیاب بچوں کے خواہشمندضرور پڑھیں!

اپریل میں پیدا ہونے والے بچوں کے نصیب اور روشن مستقبل کے لیے

شیخ الوظائف  نے پہلی مرتبہ اس علم  سے پردہ اٹھا دیا علم العداد اور علم النجوم کے حساب سے پورامہینہ ہر دن کے حساب سے بچے کی فطرت، احتیاطیں ، علم اور وظیفہ

نوٹ: والدین کو بچے کے لیے دیا گیاوظیفہ  بچہ خودبھی پڑھ  سکتا ہے ۔یہ وظیفہ زندگی بھر کے لیے ہے  مزید دیگر اعمال وظائف کے ساتھ اگر اس وظیفے کو بھی جاری رکھا جائے تو عمربھر مسائل، مشکلات ، مصائب وبیماری سے حفاظت رہے گی۔

1۔ اس  دن پیدا ہونے والے بچے سرگرم قوت متخیلہ کے مالک اور  آرٹسٹک ہوں گے انہیں تاریخ اور اد ب کے مطالعے  کی ترغیب  دیں۔ صبح وشام  72 مرتبہ يا حسيب پڑھ کردم کریں۔

بچے کی نیت سےکہیں پھل دار درخت یا پودا لگادیجئے۔

2۔اس دن پیدا ہونے والے بچے کسی قدر مشکل زندگی کزاریں گے۔ چنانچہ انہیں کفایت شعاری اور دور اندیشی اور موقع محل دیکھ کر بات کرنے کی ہدایت کریں۔تعلیمی معاملات میں رہنمائی کریں اور کسی ہنر یا پیشے کی تعلیم ضرور دلائیں تاکہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔ بچے پر والدین صبح وشام اکیس مرتبہ يا حليم يا عظيم  پڑھ کر دم کریں۔ ایک روٹی ہمراہ سالن کسی فقیر کوکھلادیں۔

3۔ اس دن پیدا ہونے والے بچے بے چین اور سفر کے شوقین ہوں گے، انہیں کفایت شعاری کی تعلیم دیں اور تجارتی مضامین پڑھنے کی ترغیب دیں۔والدین صبح وشام 21  بار”يا رزّاق” پڑھ کردم کریں۔ ایک پاؤکشمش بانٹ دیں۔

4۔ اس دن پیداہونے والے بچےخاصی مشکل اور سخت زندگی گزاریں گے چنانچہ انہیں کفایت شعاری،احتیاط اور دور اندیشی کی تعلیم دیں اور کسی ہنر یا پیشےکی تعلیم ضروری دلائیں۔تاکہ کسی کے محتاج نہ رہیں ۔ تعلیم میں ان کی رہنمائی کریں۔ صبح وشام 21 مرتبہ سورۃ الناس پڑھ کر دم کریں۔ سفید رنگ کی شیرینی بانٹ دیں۔

5۔ اس دن پیدا ہونے والے بچے اوسط درجے کے خوش قسمت زندگی گزاریں گے ۔ انہیں قانون کی تعلیم دلائیں اور اس سے متعلقہ پیشہ اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ صبح وشام ستر بار يا وكيل پڑھ کر دم کریں اور 50 روپے کسی مستحق کو صدقہ کردیں۔

6۔اس دن پیداہونے والےبچوں کارجحان سائنس اور ریاضی کی طرف ہوگا انہیں مضامین میں اعلیٰ  تعلیم دلوائیں۔ صبح وشام 41 بار “يامهين يا بصير”  پڑھ کردم کریں۔حسب استطاعت شکرہدیہ کردیں۔

7۔ اس دن پیداہونے والےبچوں کوخطرہ والی جگہ پر انویسٹمنٹ کرنے کے نقصان اور بچت کے فوائد سے  ضرور آگاہ کریں۔ کنسٹرکشن کا پیشہ ان کے لیے  بہتر رہے گا۔ والدین بچے اور پانی پر روزانہ ایک مرتبہ سورۃ المزمل پڑھ کر دم کریں اور دم شدہ پانی پلائیں۔7 چاکلیٹ بچوں میں بانٹ دیں۔

8۔ اس دن پیداہونے والےبچوں کو اخراجات پر کنٹرول رکھنے کی ہدایت کریں۔ اس کے علاوہ دکانداروں کی باتوں میں ہرگزنہ آنے کی ہدایت بھی کریں۔صبح وشام “یاباسط” 41 مرتبہ پڑھ کر بچے پر دم کریں ۔پیلے رنگ کی مٹھائی حسب توفیق بانٹ دیں۔

9۔ اس دن پیداہونے  والے بچے  کچھ آرٹسٹک صلاحیتوں کے مالک ہوں گے۔ بچوں سے متعلق کسی پیشے کو اختیار کرکے کامیاب زندگی گزاریں گے۔ اول آخرتین بار درود پاک کے ساتھ 1 بار سورۃ فاتحہ تین بار سورۃ الاخلاص پڑھیں یہ عمل اسی ترتیب کے ساتھ صبح وشام  7 بار پڑھ کربچے پر دم کریں۔حسب توفیق کبوتروں کو دانہ ڈال دیں۔

10۔ اس دن پیداہونے والےبچوں کو مالی مشکلات میں محتاط رہنا سکھائیں، تعلیمی معاملات میں ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں اور الیکٹرک انجینئرنگ میں مستقبل بنانے  کی تلقین کریں۔ صبح وشام 21 مرتبہ سورۃ النصر (پارہ 30) پڑھ کر بچے پردم کریں۔ ایک کپ چائے کسی کوپلادیجئے۔

11۔ اس دن پیداہونے  والے بچے بہ حیثیت ادیب یا صحافی اچھا مستقبل  بنا سکیں گے۔ تاریخ اور اردو ادب کے مطالعے کی ترغیب دیں ۔ صبح وشام 41مرتبہ “یاعزيز“پڑھ کر بچے پر دم کریں۔ بھنے ہوئے  چنے کم ازکم چار مٹھیاں زیادہ  سے زیادہ ایک کلو بانٹ دیں۔

12۔ اس دن پیداہونے والےبچے زندگی میں بے شمار اتار چڑھاؤدیکھیں گے انہیں کفایت شعاری کی تعلیم دیں۔ تعلیمی معاملات میں رہنمائی کریں اور کسی ہنریاپیشے کی تعلیم ضرور دلائیں تاکہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔صبح وشام گیارہ مرتبہ  سورۃ الفلق پڑھ کر  بچے پردم کریں۔ایک فرد کوکھانا کھلادیں۔

13۔ اس دن پیداہونے والےبچوں کوروپے پیسے کے معاملات میں محتاط رہنے کی تعلیم ضرور دیں اور تجارتی مضامین یا کامرس  کی تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کریں۔ والدین صبح وشام 19 مرتبہ “ياحى ياقيوم” پڑھ کر دم کریں ۔40 روپے صدقہ کریں۔

14۔ اس دن پیداہونے والےبچے بے خوف اور ہم جوہوں گے۔ فوج میں شمولیت اختیار کرکے  اچھا مستقبل بناسکیں گے۔ ریاضی اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔ نظر بد اتارتے رہیں، صبح وشام گیارہ مرتبہ سورۃ القلم(پارہ 29) کی آخری دوآیات پڑھ کردم کریں۔ ایک کلو سیب کسی  سفید پوش کوہدیہ دیدیں۔

15۔ اس دن پیداہونے والےبچے نڈر اور بے خوف ہوں گے، نتیجتاًمشکلات میں پھنسا کریں گے،محتاط اور دور اندیشی کی تعلیم ضروردیں اور تعلیمی معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی  کریں تاکہ پڑھائی کاشوق پیداہو۔ صبح وشام 100 بار “یاوارث“پڑھ کردمکریں۔ایک کلوچاول صدقہ کریں۔

16۔ اس دن پیداہونے والےبچے خاصی مشکلات اور سخت زندگی گزاریں گے چنانچہ انہیں کفایت شعاری، احتیاط اور دور اندیشی کی تعلیم دیں اور کسی ہنر یاپیشے کی تعلیم ضرور دلائیں تاکہ کسی کےمحتاج نہ رہیں ۔ تعلیم میں ان کی رہنمائی کریں۔ صبح وشام ایک تسبیح درود پاک کی پڑھ کردم کریں  ۔ گلابی رنگ کی مٹھائی حسب توفیق بانٹ دیں۔

حکیم طارق  محمودچغتائی عبقری والے کے وظائف جوبچوں کے متعلق ہیں ان کوکرسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ وظائف کرنا جائز نہیں اس کی تفصیل  یہ ہے کہ بچوں سے متعلق جو وظائف عبقری نامی رسالے میں ذکرکیے گئے ہیں ان میں اپریل کے مہینے کی ہرہر تاریخ میں پیدا ہونےوالےبچوں کے بارے میں مستقبل کی خبریں دی گئی ہیں جن کی  بنیاد خود اس رسالے میں  علم عدد و نجوم بتلائی گئی ہے چنانچہ رسالے کی  عبارت میں ہے:

“شیخ الوظائف نے پہلی مرتبہ اس علم سے پردہ اٹھا دیا  علم العدد اور علم النجوم کے حساب سے پورا مہینہ ہر دن کے حساب سے بچے کی فطرت، احتیاطیں، علم اور وظیفہ”

جبکہ شریعت میں علم النجوم کے بارے میں مندرجہ ذیل وعیدیں ہیں۔ چنانچہ فہم حدیث مؤلفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ (1/324تا326) میں ہے:

عن إبن عباس رضى الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اقتبس علمامن النجوم إقتبس شعبة من السحر

ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے (غیب سے متعلق) علم نجوم کا کوئی مسئلہ سیکھا تو اس نے (گناہ کے اعتبار سے) جادو کا مسئلہ سیکھا۔(جو گناہ اس میں  ہے وہی علم نجوم کا مسئلہ سیکھنے میں ہے)

عن قتادة قال خلق الله تعالى هذه النجوم لثلاث جعلها زينة للسماء ورجوما للشياطين وعلامات يهتدى بها فمن تأول بغير ذلك أخطأ وأضاع نصيبه وتكلف ما لا يعلم

ترجمہ: (بڑے تابعی) حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے یہ ستارے صرف تین چیزوں کے لیے بنائے ہیں ۔ آسمان کی زینت کے لیے اور شیطانوں کو مارنے کے لیے (جیساکہ قرآن پاک میں  سورۃ الملک ہے ولقد زينا السماء الدنيا  بمصابيح وجعلناها رجوما للشياطين (یعنی ہم نے بے شک قریب کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کر رکھا ہے اور ہم نے ان کو شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے) اور راہ معلوم کرنے کی علامتیں بنایا ہے (جیساکہ سورۃ النحل میں ہے”وبالنجم هم يهتدون” یعنی ستاروں سے وہ راہ پاتے ہیں) تو جو کوئی ان میں مذکور چیزوں  سے ہٹ کر کوئی معنیٰ نکالے (اور ان کو مستقبل کے واقعات جاننے کا ذریعہ سمجھے) تو اس نے غلطی کی اور (عمر کا) اپنا حصہ ضائع  کیا اور ایسی چیز کے درپے ہوا جو اس طرح کے ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتی۔

عن الربيع (مثله وزاد) والله ما جعل الله فى نجم حياة احد ولا موته انما یفترون علي الله الكذب

(تابعی) ربیع بن زیادؒ نے (بھی حضرت قتادہؒ کی طرح فرمایا۔ نیز یہ بھی ) فرمایا اللہ کی قسم  اللہ نے کسی ستارے میں نہ کسی آدمی کی حیات (یعنی ولادت اور بقاء) کا اور نہ اس کے رزق کا اور نہ اس کی موت کا تعلق رکھا ہے۔ نجومی  تو محض اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتے ہیں (اور یوں کہتےہیں کہ فلاں ستارے کے طلوع کے ساتھ یہ واقعات وابستہ ہیں اور فلاں ستارے  کے فلان برج میں پہنچنے کے یہ اثرات ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے عالم کے حوادث کی اور لوگوں کی قسمت کی ستاروں کے ساتھ وابستگی  نہیں رکھی۔ کوئی بات اگر درست ہوجاتی ہے تو وہ محض اٹکل اور اتفاق ہے)

“فائدہ”: دست شناسی اور علم عدد  اور علم رمل وعلم جفر کا بھی یہی حکم ہے یہ علوم کسی قطعی یا ظنی بنیادوں پر مبنی نہیں اور نہ ہی دین نے ان کو قابل اعتبار بنایا ہے لہٰذا وہمی چیز ہونے کی وجہ سے یہ شریعت میں قابل اعتبار نہیں ۔ ان علوم کے دعویداروں کے پاس جاکر مخفی باتوں کو پوچھنا جائز نہیں اور نہ ہی ان علوم سے متعلق کوئی شغل اختیار کرنا چاہیے۔

شامی(1/110) میں ہے:

‌مطلب ‌في ‌التنجيم والرمل.

(قوله: والتنجيم) هو علم يعرف به الاستدلال بالتشكلات الفلكية على الحوادث السفلية. اهـ. ح. وفي مختارات النوازل لصاحب الهداية أن علم النجوم في نفسه حسن غير مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق، وقد نطق به الكتاب. قال الله تعالى – {الشمس والقمر بحسبان} [الرحمن: 5]- أي سيرهما بحساب. واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره، وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض من الصحة والمرض ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى الغيب بنفسه يكفر، ثم تعلم مقدار ما يعرف به مواقيت الصلاة والقبلة لا بأس به. اهـ. وأفاد أن تعلم الزائد على هذا المقدار فيه بأس بل صرح في الفصول بحرمته وهو ما مشى عليه الشارح. والظاهر أن المراد به القسم الثاني دون الأول؛ ولذا قال في الإحياء: إن علم النجوم في نفسه غير مذموم لذاته إذ هو قسمان إلخ ثم قال ولكنه مذموم في الشرع. وقال عمر: تعلموا من النجوم ما تهتدوا به في البر والبحر ثم امسكوا، وإنما زجر عنه من ثلاثة أوجه:

أحدها: أنه مضر بأكثر الخلق، فإنه إذا ألقى إليهم أن هذه الآثار تحدث عقيب سير الكواكب وقع في نفوسهم أنها المؤثرة،

وثانيها: أن أحكام النجوم تخمين محض، ولقد كان معجزة لإدريس – عليه السلام – فيما يحكى وقد اندرس.

وثالثها: أنه لا فائدة فيه، فإن ما قدر كائن والاحتراز منه غير ممكن اهـ ملخصا

آپکے مسائل اور ان کا حل(2/543) میں ہے:

س… آپ نے اخبار جنگ میں ایک صاحب کے ہاتھ دکھاکر قسمت معلوم کرنے پر جو کچھ لکھا ہے میں اس سے بالکل مطمئن ہوں، مگر علم الاعداد اور علمِ نجوم میں بڑا فرق ہوتا ہے، اس علم میں یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے نام کو بحساب ابجد ایک عدد کی صورت میں سامنے لایا جاتا ہے، اور پھر جب “عدد”سامنے آجاتا ہے تو علم الاعداد کا جاننے والا اس شخص کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرسکتا ہے۔ ویسے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر اس علم کو محض علم جاننے تک لیا جائے اور اگر اس میں کچھ غلط باتیں لکھی ہوں تو ان پر یقین نہ کیا جائے تو کیا یہ گناہ ہی ہوگا؟

ج… علمِ نجوم اور علم الاعداد میں مآل اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ وہاں ستاروں کی گردش اور ان کے اوضاع (اجتماع و افتراق) سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے، اور یہاں بحساب جمل اعداد نکال کر ان اعداد سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ گویا علمِ نجوم میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثرانداز سمجھا جاتا ہے، اور علم الاعداد میں نام کے اعداد کی تأثیرات کے نظریہ پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان چیزوں کو موٴثر حقیقی سمجھنا ہی کفر ہے، علاوہ ازیں محض اٹکل پچو اتفاقی امور کو قطعی و یقینی سمجھنا بھی غلط ہے، لہٰذا اس علم پر یقین رکھنا گناہ ہے، اگر فرض کیجئے کہ اس سے اعتقاد کی خرابی کا اندیشہ نہ ہو، نہ اس سے کسی مسلمان کو ضرر پہنچے، نہ اس کو یقینی اور قطعی سمجھا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا سیکھنا گناہ نہیں، مگر ان شرائط کے باوجود اس کے فعلِ عبث ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ ان چیزوں کی طرف توجہ کرنے سے آدمی دین و دنیا کی ضروری چیزوں پر توجہ نہیں دے سکتا۔

امداد الفتاویٰ (11/602)میں ہے:

سوال(۳۳۲۴) : قدیم ۵/۳۹۷ –   مسلمان کو علم نجوم پڑھنا کیسا ہے اور نجومی نے جن لوگوں کو اخبارغیبی بتلا کر زردلباس وغیرہ فراہم کیا ہے، شرعاً وہ کمائی کیسی ہے، بعض لوگوں کا مقولہ ہے کہ یہ علم حق تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو تعلیم کیاتھا اور نجومی جو وقوع حوادث آئندہ کو امر تقدیری ہے بقواعد نجوم بتاتا ہے، یہ کچھ علم غیب میں شمار نہیں تو مسلمانان معتقدین نجوم کا اس طرح عقیدہ رکھنا اور بیان کرنا شریعت میں کیسا سمجھا جائے گا؟

الجواب: چونکہ اس پر مفاسد اعتقادیہ و عملیّہ مرتب ہوتے ہیں ، لہٰذا حرام ہے اور بعض اوقات مفضی بکفر ہے۔ اورایسی کمائی بھی حرام ہے، اس مقولہ کا جواب یہ ہے کہ اولاً یہ روایت ثابت نہیں دوسرے وہ خاص قواعد سند صحیح سے منقول نہیں ، جس سے یہ کہا جاوے کہ یہ وہی علم ہے،تیسرے عام طورپر خود اہل فن اوردوسرے رجوع کرنے والے بھی کواکب کو متصرف وفاعل مستقل سمجھتے ہیں جو مثل عقیدہ علم غیب کے خود یہ عقیدہ و استقلال فعل و تصرف کا شرک جلی اور منافی توحید ہے، چوتھے جو علم بلا اسباب علم ہو وہ علم غیب ہے اور جو چیز اسباب علم سے نہ ہو اس کا سبب سمجھنا باطل ہے اور کواکب کا اسبابِ علم سے ہونا ثابت نہیں ، پس یہ اسبابِ علم نہ ہوئے تو ان کو اسباب سمجھنا باطل ہوا پس اُن کے ذریعے سے جس علم کے حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جاوے گا وہ علم بلا اسباب ہوگا اور یہی علمِ غیب ہے، پس اہل نجوم اس اعتبار سے مدعی علمِ غیب ہوئے اوران کا مصدّق معتقد علم غیب کا ہوا، پانچویں جس طرح عقیدہ باطلہ معصیت ہے اسی طرح عمل غیر مشروع بھی معصیت ہے اور نجومی اس سے خالی ہے نہیں ؟   (امدادج۴،ص۱۳۰)

احسن الفتاویٰ (1/52) میں ہے:

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ نجومی کو ہاتھ دکھا کر حالات معلوم کرنا جائز ہے ، علم غیب تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، نجومی اسباب پر نظر کر کے نتیجہ کی پیشگوئی کرتا ہے جیسے کہ محکمہ موسمیات اور دوسرے مختلف محکمے اور ماہرین فن اسباب  کے پیش نظر پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں ۔ نیز بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ علم اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیا تھا اور نجومی جو وقوع حوادث کی خبر دیتا ہے وہ امر تقدیری بقوا عد نجوم بتاتا ہے یہ علم غیب میں شمار نہیں ۔ کیا مسلمانوں کے لئے یہ عقائد رکھنا شرعا جائز ہے ؟ بینوا توجروا

الجواب :اسباب سے متعلق عام قاعدہ یہی ہے کہ اگر ان کو مؤثر نہ سمجھا جائے بلکہ درجہ سببیت میں رکھتے ہوئے مسبب پر استدلال کیا جائے تو یہ یہ جائز ہے مگر شریعت نے اس قاعدہ سے علم نجوم کو مستثنیٰ قرار دیا ہے یعنی نجوم سے درجئہ سبب میں واقعات پر استدلال سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ اس استثناء کی حکمت کا سمجھ میں آنا ضروری نہیں ، معہٰذا بظاہر یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اس میں اتنا غلو ہو گیا ہے کہ اس کی طرف متوجہ ہونے والے بالعموم نجوم کی تأثیر کے قائل ہو جاتے ہیں ، محض سببیت پر توقف نہیں کر سکتے ، نیز اس علم میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ بسا اوقات بہت سی پریشانیوں کا باعث بنتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شریعت نجوم کی سببیت ہی کا انکار کرتی ہے یعنی نجومی جن امور کی نسبت نجوم کی طرف کرتے ہیں شریعت نے ان کی تغلیط کی ہے ویسے مطلقا سببیت بالخصوص شمس و قمر میں مشاہد ہے ، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ علم نجوم و علم فراست دراصل صحیح ہیں مگر ان کے قواعد کسی دلیل سے ثابت نہیں اسلئے ان میں عموما غلطی واقع ہوتی ہے جو بسااوقات بدگمانی کا باعث بنتی ہے اور بد گمانی سے فتنہ ، منافرت اور دیگر کئی مفاسد پیدا ہوتے ہیں چناچہ چور کی شناخت کا عمل اسی وجہ سے ممنوع ہے ۔

معارف القرآن (7/53)ميں  ہے:

مذکورہ آیت سے یہ ثابت ہوا کہ مطلق علم غیب جو حق تعالیٰ کی خصوصیت ہے اس میں بھی خاص طور سے پانچ مذکورہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا علم کسی پیغمبر کو بذریعہ وحی بھی نہیں دیا جاتا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ چیزیں کسی کو بھی معلوم نہ ہوں، حالانکہ امت کے بہت سے اولیاء اللہ سے ایسے بےشمار واقعات منقول ہیں کہ انہوں نے کہیں بارش کی خبر دی یا کسی حمل کے متعلق کوئی خبر دی، کسی کے متعلق آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی خبر دی، کسی کے مرنے کی جگہ متعین کر کے بتلا دی اور پھر یہ پیشنگوئی مشاہدہ سے صحیح بھی ثابت ہوئی۔

اسی طرح بعض نجومی یا جعفر و رمل وغیرہ کا فن جاننے والے ان چیزوں کے متعلق بعض خبریں دے دیتے ہیں، اور بعض اوقات وہ صحیح بھی ہو جاتی ہیں، تو پھر ان پانچ چیزوں کی خصوصیت علم الٰہی کے ساتھ کس طرح رہی۔

اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو سورۃ نمل میں تفصیل سے آ چکا ہے ، اور اختصارکے ساتھ اوپر مذکور ہوا ہے کہ علم غیب درحقیقت اس علم کو کہا جاتا ہے جو سبب طبعی کے واسطہ سے نہ ہو، بلاواسطہ خودبخود ہو ۔ یہ چیزیں انبیاء علیہم السلام کو بذریعہ وحی اور اولیاء کو بذریعہ الہام اور نجومیوں وغیرہ کو اپنے حسابات واسباب طبیعیہ کے ذریعہ حاصل ہو جائیں تو وہ علم غیب نہیں بلکہ انباء الغیب ہیں، جو کسی جزئی و شخصی معاملہ میں کسی مخلوق کو حاصل ہو جانا آیت مذکورہ کے منافی نہیں ۔ کیونکہ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کا کلی علم جو تمام مخلوقات اور تمام حالات پر حاوی ہو وہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بذریعہ وحی یا الہام نہیں دیا، کسی ایک آدھ واقعہ میں کوئی جزئی علم بذریعہ الہام حاصل ہو جانا اس کے منافی نہیں ۔

اس کے علاوہ علم سے مراد علم قطعی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، الہام کے ذریعہ جو علم کسی ولی کو حاصل ہوتا ہے وہ قطعی نہیں ہوتا، اس میں مغالطوں کے بہت سے احتمالات رہتے ہیں، اور نجومیوں وغیرہ کی خبروں میں تو روز مرہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ دس جھوٹ میں ایک صحیح کا بھی تناسب نہیں ہوتا، اس کو علم قطعی کیسے کہہ سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved