• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شادی کے کچھ عرصہ بعد شوہر غریب ہو جائے تو خلع کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کا نکاح کفؤ (جوڑ) دیکھ کر کیا گیا، لیکن کچھ سال بعد شوہر کے مالی حالات خراب ہوگئے اور گھر بیچنا پڑ گیا، اب شوہر اپنے بیوی بچوں کو ایک کنال کے گھر سے کرائے کے پانچ مرلے کے گھر میں لے آیا، بڑی گاڑی بیچ کر موٹر سائیکل پر لے آیا، شوہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے اب گھر میں کھانا پینا، کپڑے پہننا، مہمان نوازی، گھر کے ملازمین پہلے جیسے نہیں رہے، پہلے جیسی معیاری زندگی نہیں رہی، بیوی کہتی ہے کہ یہ مجھ پر اور بچوں پر ظلم ہے، اور شوہر کو ویسی ہی معیاری زندگی دینی ہوگی ورنہ میں خلع لے لوں گی، جبکہ شوہر گھر فراہم کر رہا ہے اور کھانا پینا بھی پورا کر رہا ہے، لیکن پہلے جیسا نہیں۔ بچوں کو مہنگےسکول سے بھی اٹھا لیا ہے کیونکہ مالی حالات اجازت نہیں دیتے کہ اتنے مہنگے سکول میں پڑھایا جائے،  مذکورہ صورت میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے کہ

  1. کیا شوہر پر لازم ہے کہ مرتے دم تک شادی کے پہلے دن والی معیاری زندگی دیتا رہے؟
  2. اگر شوہر پہلے جیسی معیاری زندگی نہ دے سکے تو کیا شوہر ظالم اور گناہ گار تصور ہوگا؟ اور اللہ کے ہاں روز قیامت شوہر کی پکڑ ہوگی؟
  3. اگر شوہر پہلے جیسی معیاری زندگی نہ دے سکے تو کیا بیوی کے لیے ایسی صورت میں شوہر سے خلع  کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟
  4. اگر بیوی ایسے حالات آجانے کے بعد شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور وقتاً فوقتاً طعنے بھی دے کہ تم اچھے انسان نہیں ہو، تم نے آخر کیا ہی کیا ہے میرے لیے سوائے میری زندگی میں تکلیفیں لانے کے اور میری زندگی تم نے عذاب بنا دی ہے وغیرہ وغیرہ تو کیا یہ شوہر پر ظلم نہیں ہوگا؟

مفتی صاحب نوبت طلاق/خلع تک پہنچ گئی ہے، براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلے کا حل جلد از جلد بتا دیں۔جزاک اللہ خیرا

نوٹ: میں یہ مسئلہ کسی عدالت میں دکھانے کے لیے یا کسی کو چیلنج کرنے کے لیے نہیں پوچھ رہا، صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ ایسی صورتحال میں میرے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ اور میرے بیوی بچوں کا میرے ساتھ ایسا رویہ رکھنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شریعت نے بیوی کے نفقہ (خرچہ) کے بارے میں میاں بیوی دونوں کی مالی حالت کا اعتبار کیا ہے، اگر میاں بیوی دونوں مالدار ہوں تو بیوی کو امیروں کی طرح کا کھانا اور کپڑا ملے گا اگر دونوں غریب ہوں تو غریبوں کی طرح کا کھانا اور کپڑا ملے گا، اور اگر ایک امیر ہو اور دوسرا غریب ہو تو درمیان کا روٹی، کپڑا ملے گا یعنی جو امیری سے کم اور غریبی سے زیادہ ہو، لہذا

(1) مرتے دم تک  بیوی بچوں کو شادی کے پہلے دن جیسی معیاری زندگی دینا شوہر پر لازم نہیں۔

(2)اگر شوہر اپنی حیثیت کے مطابق بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرتا رہے تو پہلے جیسی معیاری زندگی نہ دینے کی صورت میں شوہر ظالم شمار نہیں ہو گا، اور نہ ہی قیامت کے دن اس کی پکڑ ہو گی۔

(3)شوہر کی مالی حیثیت کم ہو جانا شرعا خلع کی بنیاد نہیں بن سکتا، لہذا مذکورہ صورت میں بیوی کے لیے خلع لینا جائز نہیں۔

(4)میاں بیوی کا رشتہ خیر خواہی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے لہذا بیوی کے لیے ضروری ہے کہ مشکل حالات میں شوہر کا ساتھ دے،ایسے حالات میں شوہر کو طعنے دینا اور خلع کا مطالبہ کرنا شوہر کے ساتھ ظلم ہے۔

شامی  (287/5) میں ہے:

قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved