• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی گیس مدرسہ میں استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

ہماری مسجد کے ساتھ مدرسہ ہے جس میں مسافرطلباءزیر تعلیم ہیں گیس کا میٹر مدرسے کا الگ ہے اور مسجد کا الگ ہے۔ہم مسجد کی گیس کا پائپ مدرسے میں لگانا چاہتے ہیں اس کی گنجائش ہے کہ ہم مسجد کے چندے سے مدرسے کے ہیٹر وغیرہ استعمال کریں اور یہ کام چندہ دینے والوں سے خفیہ رکھیں گے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کے گیس کو مدرسے میں استعمال کرنا جائز نہیں ۔کیونکہ چندہ دینے والوں کی غرض اس مال کو مسجد میں صرف کرنا ہے اورچندہ دینے والوں کی غرض کی رعایت رکھنا واجب ہے   ۔

فتاوی شامی (682/6)میں ہے :

انهم صرحوابأن مراعاة غرض الواقفين واجبة .

البحرالرائق(234/5)میں ہے :

ما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف……….وقدعلم انه لا يجوز لمتولى الشيخونية بالقاهرة صرف احد الواقفين للآخر.

الفقہ الاسلامی(218/8)میں ہے :

 وان اختلف احدهما بان بنى رجلان مسجدين او رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما اوقافالا يجوز للحاكم نقل مخصص احدهما للآخر.

امدادالفتاوی جدیدمطول(35/6)  میں ہے :

"مدرسہ مسجد کی جنس میں سے نہیں اس لیے زائد رقم دوسری مساجد میں صرف کرناچاہیے۔اگر اس شہر میں حاجت نہ ہو تو دوسرے شہروں کی مساجد میں صرف کریں جو زیادہ قریب ہو اس کا حق مقدم ہے اسی طرح بترتیب”

امدادالفتاوی جدیدمطول (36/6)  میں ہے :

"یہ اوقاف مسجد کے لیے ہیں نہ کہ مدرسے کے لیے ،بعد وقف کے مصرف بدلنا خود واقف کو بھی جائز نہیں ایک مصرف سے استغناء کے وقت اسی مصرف کے مماثل میں صرف کرنا چاہیے جیسے مسجد مسجد مدرسہ مدرسہ ونحو ذالک” 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved