- فتوی نمبر: 24-337
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)شہید مسجد کا ملبہ کسی کو عطیہ کرنا جائز ہے؟ (2)مسجد کا ملبہ یعنی اینٹ، پتھر وغیرہ کو روڈ میں استعمال کرنا یا مسجد کے بیم کو کسی نالے کے پل میں استعمال کرنا کیسا ہے؟
سائل: خادم جامع مسجد دھنیاں کیری رائیکی نتھیا گلی ضلع ایبٹ آباد
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
-1 شہید مسجد کا ملبہ کسی کو عطیہ کرنا جائز نہیں، البتہ بیچا جا سکتا ہے، اور بیچنے کی صورت میں خریدار کو ہدایت کر دی جائے کہ یہ مسجد کا ملبہ ہے اسے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جہاں بے ادبی نہ ہو۔
شامی (552/6) میں ہے:
والذي ينبغي متابعة المشايخ المذكورين في جواز النقل بلا فرق بين مسجد أو حوض، كما أفتى به الإمام أبو شجاع والإمام الحلواني وكفى بهما قدوة، ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه، وقد وقعت حادثة سئلت عنها في أمير أراد أن ينقل بعض أحجار مسجد خراب في سفح قاسيون بدمشق ليبلط بها صحن الجامع الأموي فأفتيت بعدم الجواز متابعة للشرنبلالي، ثم بلغني أن بعض المتغلبين أخذ تلك الأحجار لنفسه، فندمت على ما أفتيت به، ثم رأيت الآن في الذخيرة قال وفي فتاوى النسفي: سئل شيخ الإسلام عن أهل قرية رحلوا وتداعى مسجدها إلى الخراب، وبعض المتغلبة يستولون على خشبه، وينقلونه إلى دورهم هل لواحد من أهل المحلة أن يبيع الخشب بأمر القاضي، ويمسك الثمن ليصرفه إلى بعض المساجد أو إلى هذا المسجد؟ قال: نعم
-2مسجد کا پرانا ملبہ اینٹ پتھر وغیرہ قابل احترام ہے ، اس لیے اسے روڈ میں استعمال کرنا یا کسی نالے کے پل میں استعمال کرنا اس کی بے حرمتی ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے ۔
درمختار (355/1) میں ہے:
ولا ترمى براية القلم المستعمل لاحترامه كحشيش المسجد وكناسته لا يلقى في موضع يخل بالتعظيم.
فتاوی رحیمیہ (9/153) میں ہے:
(سوال ۱۷۷)ہماری مسجد بہت ہی بوسیدہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اسے شہید کر کے دوبارہ تعمیر کرنا ہے مسجد کا پرانا ملبہ اینٹ وغیرہ جو نکلے گا اسے کہاں استعمال کیا جائے کسی سے بچنا کیسا ہے ؟ بینوا توجروا۔
(الجواب)مسجد کا پرانا ملبہ اینٹ وغیرہ قابل احترام ہے ، مناسب یہ ہے کہ مسجد ہی میں کسی مناسب جگہ استعمال کیا جائے یا کسی دوسری مسجد جسے اس ملبہ کی ضرورت ہو ان سے بیچ دیا جائے ، ناپاک جگہ اور جہاں بے ادبی ہو وہاں استعمال نہ کیا جائے ، درمختار میں ہے: ولا ترمی براية القلم المستعمل لا حترامه کحشیش المسجد وکناسته لا یلقی فی موضع یخل بالتعظیم۔ترجمہ: مستعمل قلم کا تراشہ قابل تعظیم ہے اس کو پھینکا نہ جائے جیسے مسجد کی پرال اور اس کا کوڑا ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جس میں ا س کی بے ادبی ہو ۔(درمختار مع الشامی ج۱ ص ۱۶۵ کتاب الطہارۃ)
اگر بیچنے کی ضرورت ہو تو کسی مسلمان سے بیچا جائے اور اسے ہدایت کر دی جائے کہ یہ مسجد کا ملبہ ہے اسے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جہاں بے ادبی نہ ہو، غیر مسلم سے نہ بیچا جائے اس سے بیچنے میں بے ادبی کا قوی اندیشہ ہے ۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved