- فتوی نمبر: 23-334
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > طہارت > غسل کا بیان
استفتاء
چھت والی ٹینکی کی صفائی میں چڑیا کی ہڈیاں اور پر نکلیں تو کیا حکم ہے؟
وضاحت مطلوب ہے :ہڈیاں اور پر کس چیز کے ہیں ؟
جواب وضاحت:چڑیا وغیرہ کی ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس کے دو حکم ہیں (1)مذکورہ ٹینکی کا پانی ناپاک ہوگیا ہے ۔ باقی رہا یہ سوال کہ اسے کب سے ناپاک سمجھا جائے تو احتیاط اس میں ہے کہ تین دن تین رات قبل سے ناپاک سمجھا جائے اور اتنے عرصے کی نمازیں لوٹالی جائیں اور اس پانی سے جو کپڑے وغیرہ دھوئے گئے انہیں بھی پاک کرلیا جائے۔لیکن ایک قول کے مطابق جس وقت سے پانی کا ناپاک ہونا معلوم ہے اس وقت سے پانی ناپاک سمجھا جائے گا اور اس سے پہلے پاک ہوگا لہذااگر جس وقت کنویں کا ناپاک ہونا معلوم ہوا ہے اس وقت سے ناپاک سمجھیں اور اس سے پہلے کی نماز ،وضو سب درست سمجھیں تب بھی درست ہے۔
(2) مذکورہ ٹینکی پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ”پر“اور”ہڈیاں “نکال کر پانی والی موٹر چلا دی جائے اور اس ٹینکی سے جڑی غسل خانوں اور وضوخانوں میں ٹوٹیاں کھول دی جائیں۔
(1)الفتاوى الهندية (1/ 20) میں ہے
وإذا وجد في البئر فارة أو غيرها ولا يدري متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وان كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا ليس عليهم إعادة شيء حتى يتحققوا متى وقعت كذا في الهداية وان علم وقت وقوعها يعيدون الوضوء والصلاة من ذلك الوقت بالاجماع
(1)رد المحتار (2/ 139) میں ہے
( ويحكم بنجاستها ) مغلظة ( من وقت الوقوع إن علم ، وإلا فمذ يوم وليلة إن لم ينتفخ ولم يتفسخ ) وهذا ( في حق الوضوء ) والغسل ….أما في حق غيره كغسل ثوب فيحكم بنجاسته في الحال وهذا لو تطهر عن حدث أو غسل عن خبث ، وإلا لم يلزم شيء إجماعا جوهرة.
( ومذ ثلاثة أيام ) بلياليها ( إن انتفخ أو تفسخ ) استحسانا.وقالا : من وقت العلم فلا يلزمهم شيء قبله ، قيل وبه يفتى .
(1)بہشتی زیور(63) میں ہے
مسئلہ۔ کنویں میں مرا ہوا چوہا یا اور کوئی جانور نکلا اور یہ معلوم نہیں کہ کب سے گرا ہے اور وہ ابھی پھولا پھٹا بھی نہیں ہے تو جن لوگوں نے اس کنویں سے وضو کیا ہے ایک دن رات کی نمازیں دہرائیں اور ا س پانی سے جو کپڑے دھوئے ہیں پھر ان کو دھونا چاہیے۔ اور اگر پھول گیا ہے یا پھٹ گیا ہے تو تین دن تین رات کی نمازیں دہرانا چاہیے۔ البتہ جن لوگوں نے اس پانی سے وضو نہیں کیا ہے وہ نہ دہرائیں۔ یہ بات تو احتیاط کی ہے اور بعضے عالموں نے یہ کہا ہے کہ جس وقت کنویں کا ناپاک ہونا معلوم ہوا ہے اس وقت سے ناپاک سمجھیں گے۔ اس سے پہلے کی نماز وضو سب درست ہے اگر کوئی اس پر عمل کرے تب بھی درست ہے۔
(2)الفتاوى الهندية (17/1) میں ہے
حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر كان الفقيه أبو جعفر رحمه الله يقول: كما سال ماء الحوض من جانب لآخر يحكم بطهارة الحوض.
(2)الدر المختار(1/338) میں ہے
ففي الحوض الصغیر إذا کان یدخل فی الماء من جانب ویخرج من جانب، یجب أن یکون هكذا؛ لأن هذا ماء جاروالماء الجاری یجوز التوضو فیه وعليها الفتوی.
(2)احسن الفتاوی(2/48)میں ہے
سوال : مکان کے صحن میں پانی کی ٹنکی یا چھت پر بنی ہوئی ٹنکی ناپاک ہوجائے تواس کو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟
الجواب باسم ملہم الصواب : اوپر کی ٹنکی کو یوں پاک کیا جاسکتا ہے کہ موٹر کے ذریعہ اس ٹنکی کو اس حد تک بھرا جائے کہ اوپر کے پائپ سے پانی جاری ہوجائے ۔۔۔۔اوپر کی ٹنکی کو یوں بھی پاک کیا جائے کہ موٹر کے ذریعہ اسمیں پانی چڑھانا شروع کردیں اور اس ٹنکی سے غسل خانوں وغیرہ کی طرف آنیوالی لائن کھولدیں ۔۔۔۔ اسی طرح اوپر کی ٹنکی میں مشین کے ذریعہ سے پانی اوپر سے داخل ہوگا اور نیچے آنے والی لائن کو کھولنے سے ٹنکی کے نچلے حصہ سے پانی خارج ہوگا۔ اس طریقے سے پانی کاجاری ہونا طہارت کے لئے کافی ہے یا نہیں ؟ اس میں حضرات فقہا ءرحمہم اللہ تعالی نے تردد ظاہر فرمایا ہے ۔ قال في الشامية تحت ( قوله ويخرج من آخر ) ثم إن كلامهم ظاهره أن الخروج من اعلاه فلوكان يخرج من ثقب في اسفل الحوض لا يعد جاريا لأن العبرة لوجه الماء ( إلى قوله ) ولم أر المسئلة صريحا نعم رأيت في شرح سيد عبدالغني في مسئلةخزانة الحمام التي اخبر أبويوسف برؤية فارة فيها قال فيه اشارة إلى أن ماء الخزنة إذا كان يدخل من اعلاها ويخرج من انبوب في اسفلها فليس بجار اه وفي شرح المنية يطهر الحوض بمجرد ما يدخل الماء من الانبوب ويفيض من الحوض هو المختار لعدم تيقن بقاء النجاسة فيه وصيرورته جاريا اه وظاهر التعليل الاكتفاء بالخروج من الاسفل لكنه خلاف قوله ويفيض فتأمل وراجح ( رد المحتارص175 ج1)علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی نے ردالمحتار کے مہنیہ میں حاشیۃ الاشباہ سے مندرجہ ذیل جزئیۃ نقل فرمایا ہے ۔اقول رأيت بعد كتابتي لهذا المحل في حاشية الاشباه والنظائر في آخر الفن الاول للعلامة الكفيري التي تلقاها عن شيخه الشيخ اسمعيل الحامك مفتي دمشق ما نصبه مسئلة إذا كان في الكوز ماء متنجس فصب عليه ماء طاهر حتى جرى الماء من الانبوب بحيث يعد جريانا ولم يتغير الماء فإنه يحكم بطهارته( رد المحتار ص 180 ج 1 ) اس جزئیہ سے اسکی تائید ہوتی ہے کہ ٹنکی کی طہارت کئے لئے نیچے سے پانی کا جاری ہونا کافی ہے اسلئے کہ لوٹے کی ٹونٹی لوٹے کے وسط میں ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved