- فتوی نمبر: 24-218
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > سود
استفتاء
گزارش ہے کہ ہم لوہے کی چادر سے بننے والی مصنوعات بناتے ہیں ۔اس مال سے جو ویسٹ سکریپ بچتی ہے اس کے خریدار ہمیں رقم ایڈوانس دے دیتے ہیں ۔ٹائم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔پابندی صرف یہ ہوتی ہے کہ جب بھی اور جتنی بھی اسکریپ نکلتی ہے وہ ان کی امانت ہے ۔ سکریپ کاریٹ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے ۔عام طور پر وہ موجودہ ریٹ ہی لگاتے ہیں ۔لیکن کچھ لوگ موجودہ ریٹ سے کم ریٹ لگاتے ہیں ۔اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم نے آپ کو رقم بھی تو ایڈوانس دی ہوئی ہے ۔کیا اس طرح انکے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے ۔کیا یہ چیز سود کے زمرے میں تو نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس مال خریدنے کے لیے رقم کی قلت ہے اس لئے ہم رقم ایڈوانس لے لیتے ہیں ۔رہنمائی فرمائیں کہ رقم ایڈوانس لے کر کس طریقے سے کام کیا جاسکتا ہے ؟کیا اس میں کوئی گنجائش ہے؟جزاک اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جائز نہیں ہے اور سود کے زمرے میں آتی ہے۔
توجیہ: سوال میں ذکر کردہ صورت میں ایڈوانس دی جانے والی رقم کی حیثیت قرض کی بنے گی اور اس طرح گاہک کو ایڈوانس رقم دے کر اس کے بدلے مال لیتے رہنے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے نیز جس صورت میں گاہک ریٹ میں کمی بھی کروائے تو چونکہ یہ کمی اس قرض کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے تو یہ ایک مزید خرابی ہے کیونکہ قرض کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا سود اور ناجائز ہے۔
البتہ اس کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ یا تو آپ ان کی دی ہوئی ایڈوانس رقم کو استعمال نہ کریں، ہاں جتناسکریپ وہ لیتے جائیں اس کے بقدر استعمال کرتے رہیں اور یا آپ ان لوگوں سے بیع سلم کر لیا کریں جس كی درج ذیل شرائط ہیں عقد کے وقت ہی مبیع (بیچی جانے والی چیز)کی جنس، نوع اور صفت طے ہو جائے مثلا لوہے کا ایسی قسم کا سکریپ، ثمن(قیمت) اور مبیع کی مقدار طے ہوجائے مثلا ایک من سکریپ 10 ہزار روپے کا ،مدت طے ہو جائے کہ کتنے عرصہ میں مبیع ملے گی جس میں بہتر ہے کہ کم از کم ایک مہینہ کی مدت طے ہو البتہ اس سے کم طے کرنے کی بھی گنجائش ہے ، مبیع حوالہ کرنے کی جگہ طے ہو جائے،مکمل ثمن پر معاملہ طے کرنے کی مجلس میں ہی قبضہ ہوجائے ۔نیز اس صورت میں معاملہ کرتے وقت آپ باہمی رضامندی سے مارکیٹ ریٹ سے کم بھی طے کرسکتے ہیں ۔
الدر المختار(6/ 394) میں ہے:
و كره ( إقراض ) أي إعطاء ( بقال ) كخباز وغيره ( دراهم ) أو برا لخوف هلكه لو بقي بيده يشترط ( ليأخذ) متفرقا ( منه ) بذلك ( ما شاء ) ولو لم يشترط حالة العقد لكن يعلم أنه يدفع لذلك شرنبلالية لأنه قرض جر نفعا وهو بقاء ماله فلو أودعه لم يكره لأنه لو هلك لا يضمن وكذا لو شرط ذلك قبل الإقراض ثم أقرضه يكره اتفاقا قهستاني و شرنبلالية
الاصل للشیبانی قطر(8/443) میں ہے:
قلت: أرأيت الرجل تكون عنده الوديعة فيعمل بها فيربح ولم يأذن له صاحبها؟ قال: هو ضامن للوديعة، والربح له يتصدق به، ولا ينبغي له أن يأكله. بلغنا ذلك عن إبراهيم النخعي (2). قلت: أرأيت إن عمل بها بنفسه بإذن صاحبها؟ قال: هي قرض عليه، والربح له حلال.
در مختار 486/7 میں ہے
وشرطه ۔۔۔ بیان جنس ۔۔۔ ونوع ۔۔۔۔و نوع ۔۔۔ وقدر ۔۔۔۔ واجل وأقله في السلم شهر به يفتى ۔۔۔۔ وقدر راس المال ۔۔۔۔ ومکان الایفاء ۔۔۔۔۔ وبقی من الشروط قبض راس المال قبل الافتراق۔۔۔۔ وزاد المصنف وغیره القدرة علی تحصیل المسلم فیه
المجموع شرح المهذب (13/ 108)
أما الاحكام فجوازه مؤجلا أمر مجمع عليه، أما جوازه حالا فجمهور المذاهب على خلافه، ويستدلون بحديث ابن عباس ” إلى أجل معلوم ” على اعتبار الاجل في السلم شرطا وفقهاء المذهب لم يختلفوا على جوازه حالا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved