- فتوی نمبر: 24-294
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
- زید گاڑیوں اور گاڑیوں کے ٹائرز کا کاروبار کرتا ہے۔ اور مختلف لوگوں کو گاڑی اور ٹائرز قسطوں پر دیتا ہے، ساری شرائط و معاملہ طے کرنے کے بعد زید ان کو کہتا ہے اگر آپ نے مقررہ تاریخ تک قسط ادا نہ کی تو پھر آپ سے گاڑی روک دونگا۔ جبتک آپ قسط ادا نہ کریں، اس میں دو صورتیں ہیں۔
پہلی صورت: زید نے ایک شخص کو مکمل گاڑی بیچی اور یہ شرط لگائی
دوسری صورت: صرف گاڑی کے ٹائرز بیچ کر مکمل گاڑی کو روکنے کا کہا۔
دونوں صورتوں کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
- زید نے پہلے سے گاڑی روکنے کی شرط نہیں لگائی تھی بعد میں قسط وقت پر ادا نہ کرنے پر زید نے اُس شخص کی گاڑی روک لی۔ مفتی صاحب قسط وصول کرنے کے لیے گاڑی کو اس طرح روکنا شرعاً کیسا ہے؟ ایک مفتی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ اس طرح گاڑی پکڑنا بھی جائز نہیں۔ کیونکہ جہاں قیمت کی ادائیگی کسی مدّت پر ہو یا قسطوار ہو، وہاں مبیع کو قیمت کی وصولی کے لیے محبوس کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا اور دلیل میں ہندیہ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: ’’وان کان مؤجلا فليس للبائع ان يحبس المبيع قبل حلول الاجل، ولا بعده کما في المبسوط(3/9)۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- بیچنے والے (بائع) کو یہ حق کہ جب تک خریدار اسے قیمت ادا نہ کرے تو مبیع (بیچی ہوئی چیز) کو روکے رکھے اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جب کہ بیع نقد ہو اور جس صورت میں بیع ادھار (مؤجل) یا قسطوں (مقسط) کی صورت میں ہو تو بائع کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ قیمت کی وصولی کے لیے مبیع کو روکے رکھے چاہے وہ مدت آچکی ہو جس پر خریدار نے قیمت حوالے کرنی تھی لہٰذا مذکورہ صورت میں زید چاہے پوری گاڑی بیچے یا اس کے صرف ٹائر بیچے اس کا یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے کہ قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قسط وصول ہونے تک وہ گاڑی روک لے گا۔
- جس صورت میں پہلے شرط نہ لگائی ہو تب بھی بائع کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قیمت کی وصولی کے لیے مبیع کو روک لے۔
نوٹ: یہ مسئلہ اس اعتبار سے ہے کہ کیا بائع کو ادھار یا قسطوں میں بیع کی صورت میں ثمن کو وصول کرنے کے لیے حبس مبیع (مبیع کو روکنے) کا حق ہوتا ہے یا نہیں۔ باقی جس صورت میں خریدار ثمن (دین) بالکل ادا نہ کر رہا ہو، تو مفتی بہ قول کے مطابق اس کی جو چیز بھی ہاتھ لگے اسے مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کرکے اپنا حق وصول کر سکتا ہے۔
المحیط البرہانی(12/174) میں ہے:
وللبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن اذا کان الثمن حالا…… و ان کان الثمن مؤجلا لم يکن له حق الحبس
مبسوط(13/349) میں ہے:
ويبقي حق البائع في الحبس الا ان يکون الثمن مؤجلا فحىنئذ ليس للبائع ان يحبس المبيع قبل حلول الاجل و لا بعده
بدائع الصنائع (5/ 249) میں ہے:
والثاني أن يكون الثمن حالا فإن كان مؤجلا لا يثبت حق الحبس لأن ولاية الحبس تثبت حقا للبائع لطلبة المساواة عادة لما بينا ولما باع بثمن مؤجل فقد أسقط حق نفسه فبطلت الولاية ولو كان الثمن مؤجلا في العقد فلم يقبض المشتري المبيع حتى حل الأجل فله أن يقبضه قبل نقد الثمن وليس للبائع حق الحبس لأنه أسقط حق نفسه بالتأجيل والساقط متلاش فلا يحتمل العود وكذلك لو طرأ الأجل على العقد بأن أخر الثمن بعد العقد فلم يقبض البائع حتى حل الأجل له أن يقبضه قبل نقد الثمن ولا يملك البائع حبسه لما قلنا
المجلة (ص: 57) میں ہے:
مادة 281 إذا سلم البائع المبيع قبل قبض الثمن فقط أسقط حق حبسه وفي هذه الصورة ليس للبائع أن يسترد المبيع من يد المشتري ويحبسه إلى أن يستوفي الثمن
الفتاوى الهندية (3/ 15) میں ہے:
إذا استوفى الثمن وسلم المبيع أو سلم بغير قبض الثمن أو قبض المشتري بإجازة البائع لفظا أو قبضه وهو يراه ولا ينهاه ليس له أن يسترده ليحبسه بالثمن وإن قبضه بغير إذنه له أن ينقض قبضه كذا في الخلاصة
حاشية ابن عابدين (4/ 561) میں ہے:
ولا يسقط حق الحبس بالرهن ولا بالكفيل ولا بإبرائه عن بعض الثمن حتى يستوفي الباقي ويسقط بحوالة البائع على المشتري بالثمن اتفاقا وكذا بحوالة المشتري البائع به على رجل عند أبي يوسف وعند محمد فيه روايتان وبتأجيل الثمن بعد البيع وبتسليم البائع المبيع قبل قبض الثمن فليس له بعده رده إليه بخلاف ما إذا قبضه المشتري بلا إذنه إلا إذا رآه ولم يمنعه من القبض فهو إذن وقد يكون القبض حكميا
شامی(6/151) میں ہے:
تنبيه قال الحموي في شرح الکنز نقلا عن العلامة المقدسى عن جده الاشقر عن شرح القدورى للاخصب ان عدم جواز الاخذ من خلاف الجنس کان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق و الفتوى اليوم على جواز الاخذ عند القدرة من اى مال کان لا سيما فى ديارنا لمداومتهم الحقوق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved