- فتوی نمبر: 24-385
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
گذارش ہے کہ ہم سونے کی چوڑیاں اور کڑے بناتے ہیں اور ہم 21 قیراط اور اس سے زیادہ کھوٹ والے سونے پر 22 قیراط کی مہر (Stamp )نہیں لگاتے ،چاہے کام واپس کرنا پڑے ۔واضح رہے کہ چوڑی کڑے کے کام میں سب سے پہلے پتری پر مہر (Stamp) لگتی ہے اور باقی کام بعد میں ہوتا ہے ۔جبکہ باقی زیورات میں مہر تیاری کے بعد لگتی ہے۔
مسئلہ یہ ہےکہ سال میں ایک دو مرتبہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دکاندار بہت زیادہ اصرار کرتا ہے کہ 22 قیراط والی مہر غلط سونے پر لازمی چاہیے( کم مقدار والے زیور پر 22 قیراط کی مہر چاہیے) ۔ہمارے انکار پر وہ کہتا ہے کہ آپ پتری نکال کر مجھے بلا لیں ،میں اپنے ہاتھ سے اس پر 22 قیراط کی مہر لگا دوں گا اور آپ باقی کام تیار کرلینا ۔
کیا اس طرح مہر لگانے سے زیور بنانے والے سے تو کوئی بازپرس نہیں ہو گی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
22 قیراط سے کم قیمت سونے پر 22 قیراط سونے کی مہر لگانا صریح دھوکہ اور خیانت ہے ۔لہذا آپ کے لیے نہ خود یہ مہر لگانا جائز ہے اور نہ ہی اس کو مہر لگانے کے لیے بلانا اور مہر لگانے دینا جائز ہے۔
سونے چاندی اور ان کے زیورات کے اسلامی احکام (ص : 89)میں ہے:
سوال:بعض دوکاندار زرگر سے 18 یا 20 کیرٹ کا زیور بنواتے ہیں لیکن زرگر کو مجبور کرتےہیں کہ وہ اس پر 22 کیرٹ کی مہر لگائے ۔کیا یہ مطالبہ کرنا اور زرگر کا مطلوبہ مہر لگانا جائز ہے؟
جواب: یہ صریح دھوکہ ہے جس کا مطالبہ نہ تو دکاندار کو کرنا جائز ہے اور نہ ہی زرگر کے لیے اس کو پورا کرنا جائز ہے ۔زرگر اور دکاندار دونوں پر لازم ہے کہ جتنے کیرٹ کا زیور ہے اس کے بارے میں صحیح بات گاہک کو بتا دیں ۔کیونکہ ایک تو گاہک کو اس کی زکوٰۃ دینی ہو گی جو وہ بلاوجہ 22 کیرٹ کی قیمت کے حساب سے دے گا۔ دوسرے بعد میں کبھی گاہک اپنے زیور کو فروخت کرے گا تو اسے کم قیمت ملے گی۔ علاوہ ازیں دھوکہ دینامسلمان کی شان سے بعید ہے ۔کسی کافر کو بھی دھوکہ دینا جائزنہیں ہے چہ جائیکہ مسلمان کو دھوکہ دیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved