- فتوی نمبر: 24-279
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ایک مسئلہ درپیش ہے جس کے لیے آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ مہربانی فرماکر میرے اس مسئلہ کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں حل بیان فرمادیں۔
میرا نام محمد اشعر حسین ملک ہے اور میں کینیڈا اور پاکستان میں کاروبار کرتا ہوں اور کینیڈا کے کاروبار کی دیکھ بھال کے لئے کینیڈا آتا جاتا رہتا ہوں۔ سال2014ء میں میرے ایک عزیز عارف صادق صاحب وہاں مہاجر کے طور پر آئے جس طرح عموماً اکثر پوری دنیا کے لوگ وہاں کینیڈا میں سکونت اور شہریت کے لئے آتے ہیں یہ بھی اپنی شہریت اور اپنے بچوں کی تعلیم اور شہریت کے لیے وہاں کینیڈا آئے ان کے وہاں کینیڈا پہنچنے کے بعد ان کے پاس کوئی ملازمت یا کوئی کاروبار نہ تھا اور نہ ہی ان کے پاس کاروبار شروع کرنے کے لئے درکار مالی وسائل تھے اس چیز کا اظہار عارف صادق صاحب نے مجھ سے کیا چونکہ وہ میرے عزیز تھے اس لئے میں نے ان کو اپنے ایک پرانے پیٹرول پمپ کے بارے میں بتایا جو کہ بند پڑا تھا اور ناقص حالت میں تھا جو میں نے سال 2012ء میں خریدا تھا اور سال 2015ء میں اس پیٹرول پمپ کو دوبارہ بنانے کے لئے عارف صادق صاحب اور میرے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ ہم دونوں مل کر اس پیٹرول پمپ کی پرانی عمارت کو گرا کر نئی تعمیر شروع کریں گے جبکہ پیٹرول پمپ کی زمین کی قیمت باہمی رضامندی سے 6لاکھ ڈالر طے ہوئی اور تعمیر کا تخمینہ ٹوٹل 12لاکھ ڈالر طے ہوا جس میں سے 2لاکھ 50ہزار ڈالر عارف صادق صاحب نے اپنی طرف سے ادا کرنے تھے اور باقی رقم 9لاکھ 50ہزار ڈالر میرے ذمہ ادا کرنی تھی اس پیٹرول پمپ کو بنانے اور بطور انویسٹمنٹ 2لاکھ 50ہزار ڈالر تعمیر میں لگانے کی وجہ سے میں نے عارف صادق صاحب کو کمپنی میں 50%کا (علامتی) مالک بنادیا اور ہمارا تناسب 40% عارف صادق صاحب کا 60% میرا طے ہوا۔
پیٹرول پمپ کی تعمیر کے دوران جب میں نے عارف صادق صاحب سے اپنے حصے کی رقم پوری ہونے کے باوجود عارف صادق صاحب کے مزید رقم کے تقاضے پر عارف صادق صاحب سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنی رقم 2لاکھ ڈالر کسی ذاتی ضرورت کے تحت نکال چکا ہے جبکہ یہ میرا گمان ہے کہ اس نے یہ اپنی رقم تعمیر میں استعمال ہی نہیں کی اس لئے مجھے مزید رقم ادا کرنا پڑی تاکہ پیٹرول پمپ کی تعمیر مکمل ہو سکے۔ چونکہ میں پاکستان آتا جاتا رہتا تھا اور تعمیر کے لیے وہاں کینیڈا میں مختلف محکموں میں آنے جانے کی ضرورت ہوتی تھی اس لئے میں نے ان پر اعتبار کیا اور 50% پیٹرول پمپ کا حصہ ان کے نام کر دیا۔
کچھ عرصے بعد تعمیر مکمل ہوگئی اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد خاطر خواہ منافع نہ ملنے کی وجہ سے فروخت نہ کیا اور ہمارے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ ہم اس کو چلاتے ہیں اور چلنے کی وجہ سے قیمت اچھی ملنے کی اُمید پر ہم نے اس کو چلانا شروع کر دیا چلانے اور منافع کی رقم کا تناسب بھی 40%عارف صادق صاحب کا اور 60% میرا طے ہوا۔ کاروبار چلانے
کے ایک سال بعد عارف صادق صاحب نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ہمیں اچھے پیسے نہیں بچ رہے جس کی وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ عارف صادق صاحب ہفتے میں 2دن پیٹرول پمپ پر جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے اکثر ایک ماہ، ڈیڑھ ماہ پاکستان آجاتے تھے اور مناسب توجہ نہ دینے کی وجہ سے پیٹرول پمپ منافع میں نہ تھا کچھ عرصہ بعد عارف صادق صاحب نے کہا کہ میں ہمیشہ کے لئے واپس پاکستان جانے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن اس سے پہلے پیٹرول پمپ کا کوئی مناسب بندوبست کرکے جاؤنگا میں نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔
میں نے سال 2015ء میں ایک ہوٹل کا سودا کیا جس کی کچھ رقم میں ادا کرچکا تھا اور کچھ رقم بقایا تھی جو کہ میں نے سال 2018ء میں ادا کرنی تھی میں نے عارف صادق صاحب سے کہا کہ مجھے ہوٹل کی ملکیت سال 2018ء میں مل جائیگی تو اگر آپ کی خواہش ہے تو میرے اس ہوٹل کی دیکھ بھال کر لینا جس کے عوض ہمارا 10% منافع طے ہوا جو کہ میں عارف صادق صاحب کو ہوٹل کی ملکیت ملنے کے ایک سال بعد جو مجھے منافع ہوگا اس میں 10% ادا کرونگا۔ میں نے عارف صادق صاحب کو کبھی بھی یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان نہ جائیں اور اس کے عوض آپ میرے ہوٹل کی دیکھ بھال کریں۔ چونکہ یہ وہاں مقیم تھے اور ان کے بچے وہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے اور آج تک پڑھ رہے ہیں اور آج تک عارف صادق صاحب بھی وہیں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سال 2018ء سے لے کر 2020ء تک میں متعدد بار کینیڈا میں اپنے ہوٹل کی ملکیت لینے گیا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر ہوٹل میرے نام پر منتقل نہ ہوسکا۔ اس دوران عارف صادق صاحب نے میرے ہوٹل کی ملکیت لینے کے لیے کچھ خط و کتابت کی۔ اس خط و کتابت کے عوض ہمارا آپس میں کوئی معاوضہ طے نہیں ہوا تھا۔
اپریل 2020ء میں کرونا (COVID-19) آنے کی وجہ سے ہوٹل فوری طور پر میرے نام منتقل ہونے کی امید ختم ہوگئی۔ جب میں نے عارف صادق صاحب سے اس بات کا اظہار کیا تو اس نے مجھ سے 30ہزا ڈالر ایڈوانس بطور قرض مانگے اور یہ کہا کہ یہ میں آپ کو ہوٹل کے پیسوں میں سے جو آپ مجھے دیں گے کٹواتا رہونگا۔ میں نے بعض وجوہات کی بنا پر ان سے معذرت کر لی حالانکہ میں اس سے قبل متعدد بار عارف صادق صاحب کو اُدھار دیتا رہتا تھا۔ میں اگلے دن فلائٹ لے کر پاکستان پہنچ گیا اس کے بعد 6ماہ تک عارف صادق صاحب نے مجھ سے کسی قسم کا کوئی بھی رابطہ نہ رکھا۔ اور میرے رابطہ کرنے پر عارف صادق صاحب نے بڑی سردمہری کا مظاہرہ کیا اور اس بات کا تقاضا شروع کر دیا کہ پیٹرول پمپ کے پلاٹ کی قیمت 3 ½ لاکھ ڈالر لگائی جا ئے گی اور سال 2018ء سے جو کہ وہ خط و کتابت میرے لیے کرتے رہتے تھے اس کا 2سال کا 10% کے حساب سے پیسوں کا تقاضا کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ اس وجہ سے میرے پاکستان میں اپنے کئی منصوبے شروع نہ ہوسکے اس وجہ سے آپ مجھے یہ رقم ادا کریں جبکہ میں نے ان کو نہ ہی کبھی پاکستان جانے کے لیے کہا اور نہ ہی کبھی پاکستان سے جانے سے روکا اور نہ کبھی میں نے ان سے کہا کہ آپ میری وجہ سے پاکستان میں اپنے منصوبے شروع نہ کریں اور نہ ہی انہوں نے کبھی مجھ سے اس بات کا اظہار کیا کہ میرے پاکستان میں فلاں فلاں منصوبے ہیں میری ان سے اس طرح کی کوئی بات طے نہ ہوئی تھی یہ سب یعنی پیسوں کا تقاضا اور پلاٹ کی قیمت جو 3 ½ لاکھ ڈالر ہوگی وغیرہ عارف صادق صاحب نے اختلاف ہونے کے بعد کیا اختلاف ہونے سے پہلے ایسی کوئی بات عارف صادق صاحب نے کبھی نہیں کی تھی۔
کچھ عرصہ میں نے اس سے اس چیز کا اظہار کیا کہ ہمیں اپنے اس اختلاف کی رہنمائی کے لیے دین محمدیﷺ کی روشنی میں سے لینی چاہیئے اور جو فیصلہ ہوگا ہم قبول کریں گے اس وقت یہ مان گئے اور بعد میں منحرف ہوگئے اور یہ موقف اختیار کیا کہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے فتویٰ لینا چاہئے تھا۔ اس تفصیل کی روشنی میں میرے تین سوال ہیں:
- عارف صادق صاحب پیٹرول پمپ کے پلاٹ (زمین) کا ریٹ کم کرسکتے ہیں؟
- کیا میں ان کو ہوٹل والے پروجیکٹ میں 2سال کی 10%، 7% منافع ادا کرنے کا پابند ہوں؟
- کیا عارف صادق صاحب اپنے پیسے نکالنے یا نہ لگانے کی وجہ سے 40% حصہ کے حقدار ہیں؟
محمد اشعر حسین ملک
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- ریٹ کم نہیں کرسکتے ،لیکن اس معاملے کے تصفیے کی صورت یہ ہے کہ پلاٹ اور عمارت کی الگ الگ قیمت لگوائی جائے گی اور عمارت میں جتنا سرمایہ عارف صادق کا لگا اس کے تناسب سے وہ عمارت کی مالیت میں حصہ دار ہوں گے ان کا پمپ کی زمین میں حق نہیں ہے البتہ عرف کے مطابق انہیں ان کا محنتانہ دیا جائے گا۔ محنتانے سے مراد یہ ہے کہ جو محنت انہوں نے تعمیر اور پمپ کو چلانے میں کی اس کی اجرت مثل ان کو دی جائے گی (اجرت مثل کا مطلب یہ ہے کہ ان جیسی صلاحیتوں والا شخص اگر کسی کی ملازمت کرتے ہوئے یہ کام کرے تو اس کو جتنی اجرت دی جائے گی ،اتنی ہی اجرت انہیں دی جائے گی )۔
- جب ہوٹل ملا ہی نہیں اور اس پر منافع بھی نہیں ہوا تو منافع کی شرکت کا سوال بے محل ہے البتہ ہوٹل کے سلسلے میں جتنا کام بصورت خط و کتابت وغیرہ کیا ہے اشعر صاحب اتنی اجرت مثل دینے کے پابند ہیں ۔
- عارف صاحب نے تعمیرنو میں جتنا سرمایہ لگا یا ہے اس کے تناسب سے عمارت میں حق دار ہیں۔ کل پمپ کے 40%کے حقدار نہیں ہیں۔
نوٹ: یہ جواب ایک فریق کے بیان پر دیا گیا ہے اگر دوسرے فریق کے بیان میں حقائق اس سے مختلف ہوں تو یہ جواب کالعدم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved