- فتوی نمبر: 24-191
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک مسئلہ درپیش ہے ایک خاتون فوت ہوتی ہیں ،اس سے قبل ان کے خاوند بھی وفات پا چکے ہیں ،ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جن میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی شادی شدہ ہیں ان کو خاتون نے کافی زیور اور سامان دیا تھا اور جو غیر شادی شدہ بیٹی ہے اس کے لیے انہوں نے کچھ زیور، جہیز اور 25 لاکھ روپے الگ کیے ہوئے تھے کہ شادی کے موقع پر اس پر خرچ کیے جائیں گے ۔ اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ خاتون فوت ہو چکی ہے، غیر شادی شدہ بچی کے لئے جو انہوں نے زیور بنوایا یا جو نقدی رکھی ہے اس میں شادی شدہ بیٹا اور بیٹی جو کہ اپنی شادیوں پر بہت مال لے چکے ہیں وہ اس مال میں شریک ہوں گے یا نہیں ؟
برائے مہربانی اس مسئلہ کا حل شریعت کی رو سے مطلوب ہے
وضاحت مطلوب ہے کہ:
- 1. خاتون یہ بات لکھ کر گئی تھی یا کسی کو بتا کر گئی تھی؟
2.سائل کا خاتون سے رشتہ کیا ہے .؟
- 3. کیا باقی بہن بھی اس بات پر راضی ہیں کہ یہ چیزیں اس بہن کو دے دی جائیں؟
4 .کیا وہ خاتون یہ بات اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کہہ کر گئی تھی؟ اور ان کا انتقال اچانک ہوا یا پھر بیماری کے بعد؟
- 5. خاتون کے الفاظ کیا تھے؟
- کیا کبھی اس خاتون نے اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کو یہ کہا تھا کہ یہ زیور ، نقدی اور جہیز کا سامان تمہارا ہے؟
- خاتون نے بیٹی کو جب یہ بات کہی تھی تب وہ بالغ تھی یا نا بالغ ؟ اور کیا یہ چیزیں اس کے قبضے میں دے دی تھیں؟
جواب وضاحت:
1.عورت یہ بات بتا کر گئی تھی۔
2.سائل عورت کا بھائی ہے۔
- 3. بہن راضی ہے البتہ بھائی سے کوئی بات نہیں ہوئی غالب گمان ہے کہ وہ بھی راضی ہوں گے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
4.فوت ہونے سے ڈیڑھ دو سال پہلے اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے فوراً بعد یہ چیزیں انہوں نے الگ کر لی تھیں اور وہ ہیپاٹائٹس کی مریضہ تھی اور مسلسل مریضہ رہی۔
5.خاتون نے یہ الفاظ کہے تھے’’ یہ میں الگ کر رہی ہوں تاکہ شادی پر اس کو دے دوں‘‘۔
6.جی بہت دفعہ کہا تھا
- بالغ تھی اور یہ چیزیں بچی کے قبضہ میں نہیں دی تھیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو زیور،نقدی اور جہیز کا سامان مذکورہ خاتون نے اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کے لئے الگ کر لیا تھا اس میں اس غیر شادی شدہ بیٹی کے ساتھ باقی ورثاء شریک نہ ہوں گے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں خاتون نے چونکہ مذکورہ اشیاء اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کو یہ کہہ کر ہدیہ کردی تھیں کہ یہ زیور،نقدی اور جہیز کاسامان تمہارا ہے جیسا کہ وضاحت نمبر 6 کے جواب سے معلوم ہوتا ہے ہدیہ کرنے کے بعد اگرچہ یہ چیزیں اپنی اس بیٹی کے قبضے میں نہیں دی تھیں لیکن چونکہ ہدیہ درست ہونے کے لئے قبضہ کی شرط بعض ائمہ کے نزدیک ضروری نہیں اس لیے مذکورہ ہبہ شرعاً درست ہو گیا۔
مغنی(5/387)میں ہے:
’’وقال مالك، وأبو ثور: يلزم ذلك(الهبة) بمجرد العقد لعموم قوله عليه السلام: "العائد في هبته كالعائد في قيئه”. ولأنه إزالة ملك بغيرعوض فلزم بمجرد العقد كالوقف والعتق.‘‘
مسائل بہشتی زیور(2/332)میں ہے:
’’تم نے زید کو کہا کہ یہ چیز میں نے تم کو ہدیہ میں دی اور زید نے کہا میں نے قبول کی اور اس چیز پر قبضہ کر لیا یا منہ سے کچھ نہیں کہا بلکہ تم نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور اس نے لے لی تو اب وہ چیز اس کی ہو گئی اب تمہاری نہیں رہی بلکہ وہی اس کا مالک ہے، اس کو شرع میں ہبہ کہتے ہیں۔ لیکن اس کی کئی شرطیں ہیں۔ ایک تو اس کے حوالہ کر دینا اور اس کا قبضہ کر لینا ہے اگر تم نے کہا یہ ہم نے تم کو دے دی اس نے کہا ہم نے لے لی، لیکن ابھی تم نے اس کے حوالے نہیں کی تو یہ دینا صحیح نہیں ہوا۔ابھی وہ چیز تمہاری ہی ملک ہے البتہ اگر اس نے اس چیز پر قبضہ کر لیا تو اب قبضہ کر لینے کے بعد اس کا مالک بنا۔ امام مالکؒ کے نزدیک ہبہ میں قبضہ کرنا کسی طور سے بھی شرط نہیں ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved