• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹیوا نکلوانے کاحکم

استفتاء

کیا ٹیوا نکلوانا جائز ہے ؟ اس میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز گم ہوجائے تووہ کسی دم   کرنے والے کے پاس جاتے ہیں  کہ وہ بتا  دے  گا کہ وہ کہا ں ہے ۔اوربعض اوقات جہاں کا وہ بتاتے ہیں  وہاں سےوہ چیز مل بھی جاتی ہے ۔میری خالہ  کا ہار گم ہو ا ،تو ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کے سسرال والوں نے اٹھایا ہے اور  ٹرنک میں رکھا ہے  تو وہاں سے ملا۔توکیا یہ پوچھنا جائز ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ ترکیب  اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس ترکیب سے جس کا چورہونا  معلوم ہو ا سے محض اس ترکیب  کی بنیاد پر چور نہ سمجھا جائےبلکہ یہ ترکیب یا تو اس لیے اختیار کی جائےکہ اس  کے ڈرکی وجہ سے جو حقیقی چور ہے وہ از خود چوری کی ہوئی  چیز کسی طرح واپس کردےاور یا اس  لیے اختیار کی جائے کہ جس کے پاس یا جس جگہ اس ترکیب کے ذریعے چوری شدہ چیز کا ہونا معلوم ہوا ہے اس شخص  کی یا اس جگہ  کی تلاشی وغیرہ  کے نتیجے میں چوری شدہ چیز برآمد ہوجائے ،ورنہ محض اس ترکیب کی بنیاد پراسے چورنہ سمجھا جائے۔لیکن عوام عام طور سے ان شرائط کا خیال نہیں رکھتے بلکہ محض اس ترکیب کی وجہ سے جس کا نام نکل آئے اسے پکا چور سمجھتے ہیں جو کہ خلاف شرع ہے لہذا ایسی تراکیب اختیار کرنےسے احتیاط ہی کی جائے۔

القول الجمیل شرح شفاء العلیل (ص:289) میں ہے:

“ويجب علي من اطلع علي السارق بأمثال هذه أن لايجزم بسرقته ولايشيع فاحشته بل يتبع بالقرائن، قال الله تعالي :ولا تقف ماليس لك به علم “

امداد الفتاوی (4/86) میں ہے:

سوال :زید قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھ کر ایک برتن پردم کرتا ہے، ایک دوسرا شخص اس برتن کو پکڑلیتا ہے پھر برتن میں ایک قسم کی حرکت پیدا ہوتی ہے، اگر کسی ساحر نے اس پر سحر کیا ہے تو جہاں سحر ہے وہاں پر چلا جاتا ہے، اور ا گر کسی درخت پر کیا ہے تو درخت پر چڑھنا چاہتا ہے، اگر کسی کا مال چوری ہوا ہے تو جہاں مال ہے وہاں پر چلا جاتا ہے۔ یہ زید کا عمل جائز ہے یا ناجائز ہے۔ اگر حرام ہے تو کِس دلیل سے؟

الجواب: یہ عمل فی نفسہ جائز ہے، اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی امر ناجائز کی طرف مفضی تو نہیں ہوتا، یا ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو اس عارض کی وجہ سے لغیرہ ناجائز ہوجائے گا مثلاً اس عمل کے ذریعہ سےکسی شخص کو چور سمجھنا جو کہ خلاف ہے نص “ولاتقف مالیس لک به علم” کے کیونکہ علم سے مراد دلیل شرعی ہے اور ایسے اعمال دلیل شرعی نہیں ۔ اور اگر امر ناجائز کی طرف مفضی نہیں ہوتا تو پھر بالکل جائز ہے  مثلاً اس امر کے ذریعہ سے مال مِل جانا یا سحر باطل ہوجانا۔

خلاصہ یہ کہ  یہ (عمل )فی نفسہٖ جائز اور اگر مقدمہ حرام کا بن جائے تو ناجائز۔

امدادالفتاوی جدید (8/536) میں ہے:

چوری بر آمد کرنے کے لیے عملیات:

سوال :   شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے دزد کے معلوم کرنے کی ترکیب لکھی ہےاور یہاں بعض بزرگ یہی ترکیب کرتے ہیں ‘ کہ دزد معلوم کرنے کے لئے ایک آیت بیضۂ مرغ پر لکھتے ہیں اور پھر سورۂ یٰسین یا کوئی اور سورت پڑھتے ہیں ، اور ایک چھوٹے لڑکے سے بیضہ کو دکھلواتے ہیں ، وہ لڑکا اس انڈے میں دیکھ کر بتلاتا ہے کہ فلاں شخص فلاں چیز لئے ہوئے ہے۔ اس ترکیب سے بعضی چیزیں لوگوں کو مل گئی ہیں ‘ دزد کا پتہ لگ گیا ہے۔ ایسی ترکیب کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ اس ترکیب پر یقین نہ کرے۔ قرائن کا اتباع کرے کہ یقین کرناجائز نہیں حالانکہ یقین یا ظن غالب پیدا کرنے کے لئے ایسا ہو رہا ہے؟

الجواب:  نہیں ؛ بلکہ اس لئے ہے کہ جس کا اس طرح سے پتہ لگے اس کا تفحص بطریق شرعی کریں  لیکن عوام اس حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔

امدادالفتاوی  جدید(8/537)م میں ہے:

“سوال تتمہ سوال بالا: یہ عمل کیسا ہے؟

الجواب: میرے نزدیک بالکل ناجائز، اس لئے کہ عوام حدِّ تفحص سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔

فتاوی عثمانی (1/276) میں ہے:

سوال :چور یا گم شدہ چیز معلوم کرنے کے بارے میں بعض ٹوٹکے اور منتر، حیلے وغیرہ شرعا درست ہے یا نہیں ؟اورکیا یہ معتبر ہیں یا نہیں ؟

الجواب :اس قسم کے اعمال شرعا حجت نہیں ہیں ان پر اعتماد نہ کرنا چاہیئے۔

فتاوی رشیدیہ (ص: 602) میں ہے:

سوال :   نام نکلواناجو طریقہ عاملوں کا ہے سورۃ یٰسین وغیرہ پڑھ کر لوٹا وغیرہ گھومتا ہے کسی شخص   معین کے نام پر یہ نام نکالنا اور اس پر اعتقاد کرنا درست ہے یا نہیں ؟

الجواب: یہ عمل کرنا ا س غرض سے کہ چور خوف کر کے سرقہ دے دیوےتو درست ہے اور اس وجہ سے کہ اس سے  حال چور کا معلوم ہوتا ہے درست نہیں کہ علم غیب نہیں ہوسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved