• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بزرگ اور والدین کے ہاتھ پاؤں چومنے کا حکم

استفتاء

کسی  بزرگ، والدین یا بڑوں میں سے کسی کے ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہے یانہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی بزرگ  جیسے عالم  دین یا  والدین کے تعظیم کے طور پر ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہےبشرطیکہ دیگر منکرات سے خالی ہو۔

کتاب المبسوط،  کتاب الاستحسان  (طبع:دار المعرفۃ بیروت،  جلد نمبر 10صفحہ نمبر 149) میں ہے:

” وقال ﷺ “من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة”

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، فصل فی صفۃ الاذکار(طبع: قدیمی کتب خانہ کراچی، صفحہ نمبر 319)میں ہے:

“ثم قال البدر العيني فعلم من مجموع ما ذكرنا إباحة تقبيل اليد والرجل والكشح والرأس والجبهة والشفتين وبين العينين ولكن كل ذلك إذا كان على وجه المبرة والإكرام وأما إذا كان ذلك على وجه الشهوة فلا يجوز إلا في حق الزوجين اهـ أي والسيد وأمته وفي رفع العوائق عن البحر الزاخر لا بأس بتقبيل يد العالم والسلطان العادل وفي غيرهما إن أراد شيئا من عرض الدنيا فمكروه وإن أراد تعظيم المسلم وإكرامه فلا بأس به”

الفتاوی العالمگیریۃ، کتاب الکراھیۃ،  الباب الثامن والعشرون فی ملاقات الملوک التواضع (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 9صفحہ نمبر187 ) میں ہے:

“( وأما الكلام في تقبيل اليد ) فإن قبل يد نفسه لغيره فهو مكروه وإن قبل يد غيره إن قبل يد عالم أو سلطان عادل لعلمه وعدله لا بأس به هكذا ذكره في فتاوى أهل سمرقند وإن قبل يد غير العالم وغير السلطان العادل إن أراد به تعظيم المسلم وإكرامه فلا بأس به وإن أراد به عبادة له أو لينال منه شيئا من عرض الدنيا فهو مكروه”

الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی العالمگیریۃ(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 9صفحہ نمبر187 )  میں ہے:

“تقبيل يد العالم كالسلطان العادل يجوز، وفي غيرهما اختلفوا وقيل: ان اراد تعظيم المسلم لاسلامه لا يكره والاولى ان لا يفعل”

بدائع الصنائع ، كتاب الاستحسان، حکم ذوات الرحم بلا محرم (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 4صفحہ نمبر 299) میں ہے:

” وذكر الشيخ أبو منصور رحمه الله أن المعانقة إنما تكره إذا كانت شبيهة بما وضعت للشهوة في حالة التجرد فأما إذا قصد بها المبرة والإكرام فلا تكره وكذا التقبيل الموضوع لقضاء الوطر والشهوة هو المحرم فإذا زال عن تلك الحالة أبيح “

جواہر الفقہ، دست بوسی اور قدم بوسی ( طبع: دار العلوم کراچی ،جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 552) میں ہے:

“خلاصہ کلام : روایات حدیث اور آثار صحابہ  و تابعین اور اقوال ائمہ و فقہاء جن کی تفصیل آپ اوپر پڑھ چکے ہیں، ان سے “مسئلہ تقبیل “کے متعلق درج ذیل احکام  حاصل ہوئے:۔۔۔۔۲۔اور جو تقبیل اور اور معانقہ چھوٹوں پر شفقت یا بزرگوں کی تعظیم و اکرام کے لئے ہو وہ باتفاق جائز اور سنت سے ثابت ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی امر منکر یعنی ناجائز کام شامل نہ ہو جائے۔۳۔اور جہاں تقبیل و معانقہ بلکہ مصافحہ میں بھی کچھ منکرات شامل ہو جائیں، وہ باتفاق مکروہ ہے، وہ منکرات جو ایسے مواقع میں شامل ہو جاتے ہیں، کئی قسم کے ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، تا کہ ان سے بچ سکیں”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved