• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"ابیہا "نام رکھنا

استفتاء

میں نے اپنی بیٹی کا نام "ابیہا” رکھا ہے۔ کیا یہ نام رکھنا درست ہے؟اس کے صحیح تلفظ کیا  ہیں  اور اس کا مطلب کیا ہے؟ سنا ہے کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کنیت  تھی۔ کیا یہ بات درست ہے؟

سوال كی مزید وضاحت:  کیا ابیہا نام اسلامی ہے؟ سنا ہے کہ اس کا مطلب ہے "سمجھدار لڑکی” ، کیا یہ بات درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

"ابیھا” (آخر  میں الف کے ساتھ)  نام رکھنا  جائز ہے  البتہ یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ عربی کا ایک لفظ نہیں، بلکہ  دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ایک لفظ "اب”اور دوسرا "ہا” ضمیر ہے، اور اس کا مطلب یہ بنتا   ہے کہ اس (عورت) کا باپ۔اس لئے عربی معنی کے اعتبار سے عورت کا یہ نام  رکھنا موزوں معلوم نہیں ہوتا۔

اور جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  کی کنیت    کی بات ہے تو وہ”ام ابیھا ” تھی، "ابیھا” نہیں۔

رہا   "سمجھدار عورت "عربی کے جس لفظ کا  معنی ہےتو وہ "ابيهه” (آخر میں "ہ "کے ساتھ)  ہے۔ اور یہ نام رکھنا  چاہیں تو رکھ سکتے ہیں۔

الفتاوى الهندیہ (5/ 362)  میں ہے:

وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط.

اسد الغابہ (7/ 216) میں ہے:

وكانت فاطمة تكنى أم أبيها، وكانت أحب الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9/ 211) میں ہے:

 قال: كانت فاطمة بنت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – تكنى: أم أبيها.

الاصابہ فی تمییز الصحابہ (8/ 262) میں ہے:

فاطمة الزّهراء: بنت إمام المتقين رسول الله: محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم، الهاشمية صلّى الله على أبيها وآله وسلّم ورضي عنها.كانت تكنى أم أبيها، بكسر الموحدة بعدها تحتانية ساكنة.

الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب (4/ 1899) میں ہے:

وذكر عَنْ جعفر بْن مُحَمَّد، قَالَ: كانت كنية فاطمة بنت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أم أبيها.

القاموس الوحید  ص 106 میں ہے:

أَبِه يَأبَه  سمجھنا ۔ تاڑ جانا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved