• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوہ بھابھی اور بھتیجی کے لیے وصیت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:

مسمی غلام حسین عرف سنی خاں اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل وثیقہ نویس سے وصیت نامہ تحریر کراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں جگر کی بیماری کا شدید حملہ ہوا ۔ اس بیماری کے دوران میرے برادر حقیقی کی بیوی اور حقیقی بھتیجی نے بہت خلوص اور محبت سے تیمارداری اور خدمت کی ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے آخری ایام گزار رہا ہوں اس لیے تاکیداً وصیت کرتا ہوں کہ میری ملکیت میں زرعی رقبہ تعدادی 1-64 میں سے 8/1 حصہ میری بھابھی کواور  8/1 حصہ میری بھتیجی کے دینے کے بعد میری تمام زرعی و غیر زرعی زمین کو میرے حقیقی ورثاء جن میں ایک حقیقی بھتیجا اور دو حقیقی بھتیجیوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ کہ وصیت گواہان کی موجودگی میں تحریر کی گئی ہے۔

(وصیت نامہ ساتھ لف ہے)

از راہ کرم قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرمائیں ۔

موصوف غلام حسین کا انتقال 1970 میں ہوا تھا غلام حسین کا ایک ہی بھائی علی شیر تھا جو ان سے پہلے فوت ہوگیا تھا ، بہن کوئی نہیں تھی اسی طرح والدین بھی پہلے فوت ہو گئے تھے ، اولاد کوئی نہیں تھی غیر شادی شدہ تھے ان کی وفات کے وقت ان کا بھتیجا اور دوبھتیجیاں حیات تھیں۔

سائل: محمد گلفام پتہ : چنن دین پارک ، عزیز کالونی ونڈالہ روڈ شاہدرہ لاہور

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں غلام حسین کےصرف ملکیتی زرعی رقبہ تعدادی1-64 میں سے (نہ کہ دیگر زرعی یا غیر زرعی رقبہ میں سے) پہلےان کی وصیت کے مطابق 8/1 حصہ ان کی بیوہ بھابھی کواور 8/1 حصہ ان کی بھتیجی کو ملےگا۔اور باقی دیگر شرعی ورثاء کو ملے گا۔مذکورہ صورت میں چونکہ غلام حسین کا شرعی لحاظ سے وارث صرف ان کا بھتیجا ہے اس لیے وصیت کا حصہ نکالنےکے بعد جو جائیداد  بچ جائےگی  وہ تمام صرف ان کے بھتیجے کو ملے گی ، شرعی لحاظ سے بھتیجے کے ساتھ بھتیجیوں کا  اپنے چچا کی میراث میں حصہ نہیں بنتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved