• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

معاہدہ پر عمل نہ کرنا

استفتاء

ایک خاندان میں والدہ محترمہ کے 4بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، خاوند کا انتقال ہو چکا ہے۔ والدہ محترمہ کا ایک مکان تھا جو معاہدہ(اس معاہدہ کا ذکر آگے آرہا ہے اور اس معاہدے کی  نقل بھی ساتھ لف ہے) کے وقت قانونی طور پر والدہ کے نام نہیں ہوا تھا صرف اتنا تھا کہ والد صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ یہ مکان تمہارا (والدہ) ہے،  وہ مکان والد کے نام بھی نہیں تھا۔  پرانی زمینوں کے لمبے قانونی پیچیدہ معاملات میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے تمام واجبات والدہ صاحب نے ادا کیے تھے اور عملہ سب آل اولاد اسے اپنی والدہ ہی کی پراپرٹی سمجھتی تھی۔ والدہ محترمہ ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ والدہ نے یہ لکھوایا کہ میرے اس مکان کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ میری بیٹی کو ایک بیٹے کا پورا حصہ دیا جائے گا۔ (معاہدہ کی نقل لف ہے)

یہ معاہدہ آج سے تقریباً 9سال پہلے لکھا گیا تھا، والدہ کے اس مکان کو نام لگوانے کے لیے اچھا خاصا خرچ تقریباً 20لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ ہر موقع پر بھائی اپنی بہن سے برابر کا خرچ لیتے رہے کہ تمہارا حصہ جب آدھا نہیں پورا ہے تو پھر خرچ بھی پورا ہی کرو، مکان اولاً والدہ کے نام ہوا پھر بچوں کے نام ہوا اور نام ہونے کا سارا عمل والدہ کی وفات کے بعد ہوا۔ اس مکان کو خریدنے والے نے رقم تین قسطوں میں ادا کرنی  ہے۔ پہلی قسط وصول ہونے پر رقم کو سب میں (4بھائی اور ایک بہن کے درمیان ) برابر تقسیم کیا گیا۔ دوسری قسط موصول ہوئے تقریباً 6ماہ گزر چکے ہیں۔

اب اس موقع پر بھائیوں کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ والدہ کی اپنی زندگی میں کئے ہوئے تحریری معاہدہ کے وقت بلکہ تادم وفات مکان کی فروخت ہی نہیں ہوئی تھی لہٰذا بعد وفات والدہ اب یہ مکان وراثت ہے اور وراثت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا اور ہمشیرہ کا حصہ نصف ہوگا (للذکر مثل حظ الانثیین) کے نص قرآنی کے موجب ۔

آنجناب سے گذارش ہے  کہ اس مسئلہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ مکررعرض ہے کہ استفتاء کے اول حصہ میں مکان کی ملکیتی کیفیت  کے متعلق جو عرض کیا ہے وہ صرف توضیح مسئلہ کے لئے ہے۔ بھائی یہی سمجھتے ہیں کہ مکان اس وقت بھی والدہ ہی کی ملکیت تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

والدہ کے فوت ہونے کے بعد مکان کی جو بھی حیثیت ہو لیکن چونکہ  بھائی ایک معاہدہ کر چکے ہیں اور اس مکان کو والدہ کے اور پھر اپنے نام لگوانے میں بہن سے خرچہ بھی برابر کا لیتے رہے ہیں۔ لہٰذا بھائیوں کو اس معاہدہ کے مطابق عمل کرنا چاہیئے خصوصاً جب والدہ کے فوت ہونے کے بعد مکان کی رجسٹری کروانے اور ایک قسط وصول ہونے تک اس پر عمل بھی کرتے رہے ہیں۔   اور اگر بھائی اس معاہدے پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں تو بہن سے جو خرچہ لیا ہے اس میں سے آدھے کے بدلے میں بہن کو اتنا سونا دیں جتنا سونا بہن سے رقم لینے کے وقت آتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved