• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مورث کے مالِ حرام کا حکم

استفتاء

محترم مفتیان کرام،پوچھنا ہے کہ میرے والد محترم اور والدہ محترمہ کا مشترکہ سیونگ اکاؤنٹ ایک بینک میں تھا جہاں والد محترم کی تنخواہ ملازمت اور بعد ازاں پنشن  آتی تھی ۔والد محترم کے انتقال کے بعدپنشن والدہ محترمہ کے نام منتقل ہوئی اور والدہ محترمہ کے انتقال  کے بعد اب اکاؤنٹ میں جو رقم ہے وہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہوئی ہے ۔اس اکاؤنٹ میں تنخواہ اور پنشن کے علاوہ بینک کی طرف سے ملنے والے سود اور حکومت کی طرف سے کسی میوچل فنڈکے منافع کی رقوم بھی شامل ہے ۔یہ اب تقریباًناممکن ہے کہ یہ حساب لگایا جاسکے  کہ اس میں تنخواہ کی ، پنشن کی ،سود کی اور میوچل فنڈ کی رقوم کس تناسب سے شامل ہیں۔میرا سوال یہ ہے ۔

1۔کیا یہ رقم ورثاء کے لیے موجودہ  شکل  میں حلال ہے؟

2۔اگرموجودہ شکل میں حلال نہیں تو کیا ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کسی غیر مسلم سے اتنی ہی رقم قرض لے کر اکاؤنٹ والی رقم سے اس کا قرض ادا کر دیا جائے ؟

3۔ اگر موجودہ شکل میں اکاؤنٹ والی رقم ورثاءکے لیے حلال نہیں ہے تو کیا ایساکوئی  شرعی حیلہ ہے جس سے یہ  رقم ورثاء کے لیے مباح  ہوجائے ۔جزاک اللہ

تنقیح :والد محترم کا سیونگ اکاؤنٹ حبیب بینک لمیٹڈمیں تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب یہ بھی معلوم  نہیں کہ ناجائز پیسہ کتنا شامل ہے اور نہ  ہی اس کو الگ کر سکتے ہیں تو اس صورت میں ناجائز پیسے کا محتاط تخمینہ لگا کر صدقہ کرد یں ۔باقی مال آپ لوگوں کے لیے حلال ہوجائے گا۔

فتاوی شامی (7/307)میں ہے :

والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له  

ویتصدق به بنية صاحبه وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما والأحسن ديانة التنزه عنه .

فتاوی عالمگیری( 5/349)میں ہے :

وإذا مات الرجل وكسبه خبيث فالأولى لورثته أن يردوا المال إلى أربابه فإن لم يعرفوا أربابه تصدقوا به وإن كان كسبه من حيث لا يحل وابنه يعلم ذلك ومات الأب ولا يعلم الابن ذلك بعينه فهو حلال له في الشرع والورع أن يتصدق به بنية خصماء أبيه .

فتاوی شامی (9/635)میں ہے :

لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه .

امدادالفتاوی(9/600)میں ہے :

"سوال( ۲۷۳۸) :  باپ نے بذریعہ حلا ل یا حرام کچھ مال حاصل کیا تھا، بیٹوں کو تحقیقی طور سے معلوم ہوا کہ ذریعہ حرام سے مال حاصل کیا، اس صورت میں بیٹوں کو وہ مال لینا حلال ہے یا حرام؟

الجواب: ہر چند بعض فقہاء نے مطلقاً مال حرام کو وارث کے لئے حلال کہا ہے، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ، مفتٰی بہ اور معتمد یہ ہے کہ اُن کے لئے بھی حرام ہے، پس اگر اربابِ حقوق ورثہ کو معلوم ہیں تو اگر بعینہ اُن کی چیز محفوظ ہو تو اس کو ورنہ اس کی قیمت واپس کردیں ، اور اگر معلوم نہیں تو اگر مال حرام معیّن اور متمیز ہے تو اس کو مالک کی نیت سے تصدق کردیں ، اور اگر مخلوط غیر متمیز ہے تو اگر اس کی مقدار قیمت معلوم ہے اس کو تصدق کردیں ورنہ تخمینہ کرکے تصدق کردے انشاء اللہ تعالیٰ آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا”

امدادالاحکام(4/625)میں ہے :

"جب ورثاء زید کو معلوم ہے کہ ان کا مورث سود خور تھا اور غالب کسب سود کا ہے تو ان پر واجب ہے کہ اس ترکہ میں سے اولاً ان لوگوں کا روپیہ واپس کریں جن سے زید نے سود لیا ہے اگر وہ لوگ معلوم ہوں اور سود کا مال حلال سے مخلوط نہ ہو۔ اور اگر سود کا مال مخلوط ہے تو خلط استہلاک ہے اس لیے یہ سب روپیہ زیدکی ملک ہوگیا ہے اور جس نے سود لیا ہے ان کا حق زید کے ذمہ رہا ،ورثاءکو یہ ترکہ مخلوط بالحرام باہم تقسیم کر لینا جائز ہے لیکن بعدتقسیم کے بطور ورع کے لازم ہے کہ اگر وہ لوگ معلوم ہوں جن سے سود لیا ہے تو ورثہ بالغین اپنے اپنے حصہ میں سے ان کا روپیہ ان کو واپس کریں ۔ اگر وہ لوگ معلوم نہ ہوں تو ان کی نیت سے فقراء پر اس مال کا تصدق کر کے بھی اس سے بری ہو سکتا ہے  "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved