• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیمِ میراث کے بعدباقی مال میں وصیت کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنا ترکہ اپنی اولاد میں تقسیم کردیا تھا سوائے دو عدد گوداموں کے ، جنہیں انہوں نے کرائے پر دیا تھا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنا گزر بسر کرتے تھے ۔عمر مبارک کے آخری حصے میں انہوں نے ان دو گوداموں کو اپنے ایک بیٹے کو دے کر فرمایا کہ میرے وصال کے بعد ان دو گوداموں کی رقم مسجد کی تعمیر میں صرف کردینا ،لیکن گزشتہ دس سال سے میرے بھائی نے کسی وجہ سے ان گوداموں کی رقم مسجد میں نہیں لگائی ،اب صورت حال یہ ہے کہ میری ایک بہن ہے جن کے شوہر کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا جو کہ ان کے گھر کا واحد کفیل تھا اور بہن کے پانچ نابالغ بچے ہیں تو (1) کیا بھائی کے پاس امانت رکھے ہوئے والد صاحب کے دو گوداموں کی رقم مسجد میں لگانے کی بجائے  ہماری بیوہ بہن کو ازروئے شرع دی  جا سکتی ہے  ؟قرآن وحدیث کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔

(2)نیز ان گوداموں کا اب تک جو کرایہ آتا رہا(وہ ہمارے بھائی کےپاس ہے) اس کی تقسیم کی کیا ترتیب ہو گی ؟

وضاحت مطلوب ہے :1۔کیا اولاد نے والد کی زندگی میں تقسیم کردہ جائیداد وغیرہ پر قبضہ بھی کر لیا تھا؟

2۔والد کی وفات کے وقت ورثاء میں کون کون زندہ تھا ؟

جواب وضاحت :  1۔جی سب کو قبضہ کروادیا تھا قانونی کاروائی بھی ہو چکی تھی ۔

2۔ والد صاحب کی وفات کے بعد کوئی وارث فوت نہیں ہوا ، جو اس وقت زندہ تھے اب بھی زندہ ہیں۔ورثاء میں چھ بیٹیاں،اور پانچ بیٹے  ہیں ۔والد صاحب نے  سب کو ان کا جداجداحصہ دے دیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ان دو گوداموں کی  ایک تہائی قیمت یا ایک تہائی کرایہ مسجد کا ہے یہ حصہ مسجد کو دینا ضروری ہے اسے کسی وارث کو نہیں دیا جاسکتا۔البتہ  دو تہائی قیمت یا  دوتہائی کرایہ وارثوں کا ہے جس میں ہر بیٹے کے دو حصے ہیں اور ہر بیٹی کا ایک  حصہ ہے۔لہٰذا بیوہ بہن اس  دو تہائی میں سے اپنے حصے کی مالک ہے اور وہ اسے دینا ضروری ہے لیکن اگر دیگر ورثاء عاقل بالغ ہوں تو وہ اپنی خوشی سے اس  دو تہائی میں سے اپنے حصوں کی قیمت یا ان کا کرایہ بھی  بیوہ بہن کو دے سکتے ہیں ۔

2۔جو کرایہ بھائی کے پاس جمع ہے اس میں سے  ایک تہائی مسجد کا ہے اور دو تہائی تمام بہن بھائیوں کا ہے جس میں ایک،ایک حصہ ہر بہن کا اور دو ،دو حصے ہر بھائی کے ہیں ۔

نوٹ:اگر کوئی وارث اپنا حصہ باپ کی وصیت کے مطابق مسجد کو دینا چاہے تو یہ بھی کر سکتا ہے تاہم یہ لازمی نہیں ۔

فتاوی شامی(569/8)میں ہے

وشرائط صحتها فی الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول ۔

جوہرۃ النیرۃ(389/2)میں ہے :

قوله: ( ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة ) يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون فإن أجازه بعضهم ولم يجزه بعضهم جاز على المجيز بقدر حصته ويبطل في حق الراد .

جو ہرة النيرة (   21/2)

  قوله:( أو يعلقه بموته فيقول إذا مت فقد وقفت داری على كذا ) ؛ لأنه إذا علقه بموته فقد أخرجه مخرج الوصية وذلك جائز ويعتبر من الثلث ؛ لأنه تبرع علقه بموته فكان من الثلث .

احسن الفتاوی (292/9)ایک سوال کے جواب میں ہے :

"اگر وارثوں نے مورث کی زندگی میں اپنے حصوں پر قبضہ کر لیا ہو  تو وہ زندگی ہی میں مورث کی ملک سے نکل گئے۔کل ترکہ وہی ثلث رہا جو اس نے وصیت کے لیے رکھا تھا لہٰذااس سے دو ثلث وارثوں میں بقدر حصص تقسیم ہوں گے اور ایک ثلث میں وصیت جاری ہو گی ،البتہ اگر سب وارث عاقل،بالغ ہوں اوروہ سب محفوظ داشتہ بطیبِ خاطروصیت پر خرچ کرنے پر راضی ہوں تو کل رقم وصیت کے مطابق خرچ کی جا سکتی ہے "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved