- فتوی نمبر: 23-328
- تاریخ: 25 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
میرے پاس 9 تولہ سونا ہےمیرےوالدین وفات پاچکے ہیں ،ایک بہن اور ایک میں ہوں میرا پارلر ہے مگر آمدن تقریبا 18 ہزار مہینہ اور کبھی اس سے بھی کم ہوتی ہے،گھر کا گزر بسر بھی مشکل سے ہوتا ہے کیونکہ گھر اور دکان کا کرایہ ادا کرنا ہوتا ہےاس سلسلے میں میری رہنمائی کیجئے کہ میری بچت بالکل بھی نہیں تومیں سونے کی زكوة کیسے ادا کروں، مالی مشکلات زیادہ ہیں کبھی بہن کا سسر مدد کرتا ہے۔
وضاحت مطلوب ہےکہ: یہ نو تولہ صرف آپکی ملکیت ہے یا اور بھی کوئی شریک ہے؟ اور یہ آپ کےپاس کیسے آیا یعنی آپ نے خریدا ہے یا میراث میں آیا ہے وغیرہ؟
جوابِ وضاحت: نہیں جی کوئی شریک نہیں ،میرے والد اور والدہ نے اپنی زندگی میں ہی زیور کی تقسیم سب اولاد میں کردی تھی،جو میرا حصہ ہے اس میں میرا کوئی اور بہن بھائی شریک نہیں، اس زیور کی وجہ سے میرے بھائیوں نے میرا اور میری بہن کا خرچہ بند کر دیا ہم دونوں بہن اپنا خرچہ خود کرتی ہیں بجلی اور گیس کے بل میں بھی ہم سے رقم لی جاتی ہے کہ آپ بھی استعمال کرتی ہو جناب ہم اپنے ابو کے گھر میں بے آسرا اور بے سہارا زندگی گزار رہے ہیں اب ہمارے بھائی کہتے ہیں جو زیور ہے اس کو بیچ کر زكوة ادا کرو ،اگر ہم ہر سال زیور کا کچھ حصہ بیچ کر زكوة ادا کریں تو پھر ہم پر ایک وقت ایسا آئےگا کہ ہم تو خیرات اور زكوة لینے والوں میں شامل ہو جائیں گے؟آپ مہربانی کرکے ہماری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ صاحبِ نصاب ہیں لہٰذاسونے کی مذکورہ مقدار پر سال گزرنے کے بعدآپ کے ذمے زکوۃ لازم ہوگی البتہ آپ کے لئے اس کی ادا کرنےمیں اتنی گنجائش ہے کہ ہر مہینے تھوڑی تھوڑی ادا کرتی رہیں،اللہ تعالی نے سونے کو بطور زیور پہننے کی اگرچہ عورت کو اجازت دی ہے لیکن سونا اصلاً کرنسی/روپیہ کے طور پر پیدا کیا ہے اس لئے اس سے کاروبار کریں تاکہ وہ مزید بڑھے باقی زکوۃ ایک خاص حد تک کے مال پر واجب رہتی ہے اس سے نیچے جانے پر لاگو نہیں ہوتی اس لیے آپ کا یہ خیال درست نہیں کہ زکوۃ دیتے دیتے ایک وقت آئے گا کہ آپ زکوۃ لینے والے بن جائیں گے۔
تبيين الحقائق (2/72)میں ہے:قال رحمه الله ( ولو تبرا أو حليا أو آنية ) أي ولو كانت الفضة أو الذهب حليا أو غيره تجب فيها الزكاة.الدر المختار (3/227)میں ہے:ولو تبرا أو حليا مطلقا ) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا.رد المحتار(3/227)میں ہے:(وافتراضها عمري)أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره(وقيل فوري)أي واجب على الفور(وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية(فيأثم بتأخيرها)بلا عذر.
قوله:(فيأثم بتأخيرها إلخ)ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان.وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل.
آپ کے مسائل اور انکا حل(3/156)میں ہے:
س:میری بیوہ بھاوج ہیں ان کے پاس تقریباً ۱۵تولے سونا کا زیور ہے، جبکہ ان کی کوئی آمدنی نہیں ہے، نہ کوئی مکان ہے، نہ کوئی ذریعہ آمدنی ہے، ان کو کیا زکوٰة دی جاسکتی ہے؟ یہ واضح رہے کہ یہ زیور ان کے پاس وہ ان کے شوہر اور ان کے والدین نے دیا تھا، ہمارے ساتھ رہتی ہیں، ان کا ایک بیٹا ہے جو ابھی پڑھ رہا ہے، اور کمانے کے قابل نہیں ہے۔
ج:آپ کی بھاوج کے پاس اگر ۱۵ تولے سونا ان کی اپنی ملکیت ہے تو ان کو زکوٰة دینا جائز نہیں، بلکہ خود ان پر زکوٰة فرض ہے، ہاں! ان کے بیٹے کے پاس اگر کچھ نہیں تو اس کو زکوٰة دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved