• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثتی زمین ملنے سے پہلے زکوۃ لینے کا حکم

استفتاء

زید کے پاس اتنا مال تو نہیں جو نصاب کو پہنچتا ہو البتہ ایک گھر اور کچھ زمین والد ماجد سے میراث میں ملی ہے۔جسکی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے اور ابھی تقسیم بھی نہیں ہوئی ہے یعنی خاندان کے باقی افراد بھی اس میں شریک ہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ اس مشترکہ میراث میں سے زید کے مجہول حصے کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے یا نہیں۔تو مذکورہ صورت کے مطابق کیا زید اور کسی سے زکوۃ لے سکتاہے یا نہیں؟ یعنی زید کا یہ مجہول حصہ زکوۃ لینے سےمانع بنتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب:(۱)زمین کی موجودہ مالیت کتنی ہے؟ (۲)ورثاء کون کون ہیں؟(۳)زمین کس کے قبضہ میں ہے کیا زمین کی تقسیم ممکن ہے؟(۴)زمین کی کیا قیمت ہے؟

جواب  وضاحت:زمین کی موجودہ مالیت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔(۲)ورثاء میں ماں،چھ بھائی،چار بہنیں اور زوجہ شامل ہیں۔(۳)زمین مشترکہ پڑی ہے فی الحال کسی معین شخص کے قبضے میں نہیں ہے،تقسیم ممکن ہے لیکن اگر تقسیم ہوجائے تو حصے بہت کم پڑ جائیں گے شاید ناقابل منفعت اور ناقابل فروخت بھی ہوجائے۔(۴)قیمت کا یقینی علم نہیں ہے البتہ اندازے کے مطابق تقریباً بیس لاکھ کہہ سکتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید کے لئے زکوۃ کا مال لینا درست نہیں کیونکہ میراث میں ملنے والی زمین میں زید دوسرے ورثاء کے ساتھ شریک ہے  اور یہ زمین اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہے لہذا اس کے ہوتے ہوئے زید کے لئے زکوۃ کا مال لینا جائز نہیں۔

ہندیہ(1/411)میں ہے:لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved