• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موبائل فون پر میسج کے ذریعےنکاح  کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ میری اپنے منگیتر سے میسج پر بات ہوتی تھی، ایک بار اس نے مجھے تحریری میسج پر کہا کہ ’’میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تم سے نکاح کرتا ہوں‘‘ اس نے یہ میسج مجھے تین بار کیا،میں نے جواب میں اپنی زبان سے تین بار یہی کہا کہ ’’میں بھی تم سے نکاح قبول کرتی ہوں‘‘ لیکن اسے یہ میسج نہیں کیا، میرے زبان سے قبول کرنے کے بعد اس نے پوچھا تمہیں قبول ہے تو میں نے میسج میں صرف ’’ہاں‘‘ لکھا، اس کا کہنا تھا کہ ہمارا نکاح ہوگیا ہے، نکاح دل اور نیت سے ہوتا ہے، باقی پیپر پر signature ( دستخط) دنیا اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ اب تین چار سال بعد اس نے کسی دوسری لڑکی سے شادی کرلی اور میرا رشتہ اس کے چھوٹے بھائی سے ہو گیا،  21 دسمبر کو اس کے چھوٹے بھائی سے میری شادی ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرا نکاح ہوچکا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے جواب دے دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے منگیتر کے ساتھ آپ کا نکاح ناجائز اور فاسدہوا ہے اور فاسد نکاح کو ختم کرنا ضروری ہے۔ نیز فاسد نکاح صرف عورت کے یہ کہہ دینے سے بھی ختم ہو جاتا ہے کہ ’’میں نے اس نکاح کو ختم کیا‘‘

توجیہ: مذکورہ صورت میں لڑکے نے تحریر (میسج) کے ذریعے ان الفاظ سے ایجاب کیا کہ ’’میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تم سے نکاح کرتا ہوں‘‘ اور لڑکی نے ان الفاظ سے قبول کیا کہ ’’میں بھی تم سے نکاح قبول کرتی ہوں‘‘ لہذا مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول ہو گیا ہے لیکن چونکہ نکاح کی صحت کے لیے گواہوں کا ایجاب و قبول کو سننا شرط ہے، اور مذکورہ صوت میں یہ شرط نہیں پائی گئی اس لیے یہ نکاح فاسد ہے۔

بدائع الصنائع(490/2 )میں ہے:ولو أرسل إليها رسولا وكتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز ذلك لاتحاد المجلس من حيث المعنى؛ لأن كلام الرسول كلام المرسل؛ لأنه ينقل عبارة المرسل. وكذا الكتاب بمنزلة الخطاب من الكاتب، فكان سماع قول الرسول وقراءة الكتاب سماع قول المرسل وكلام الكاتب معنى. وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما وعند أبي يوسف إذا قالت زوجت نفسي يجوز وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب بناء على أن قولها زوجت نفسي شطر العقد عندهما، والشهادة في شطري العقد شرط؛ لأنه يصير عقدا بالشطرين، فإذا لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب فلم توجد الشهادة على العقد، وقول الزوج بانفراده عقد عنده وقد حضر الشاهدان.درمختار مع ردالمحتار (4/83) میں ہے:ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب ما لم يكن بلفظ الأمر فيتولى الطرفين. فتح.(قوله: بل غائب) الظاهر أن المراد به الغائب عن المجلس، وإن كان حاضرا في البلد ط (قوله: فتح) فإنه قال ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت زوجت نفسي منه أو تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين.درمختار(4/266)میں ہےوشرط حضور شاهدين حرين او حروحرتين مکلفين سامعين کلامهما معا علي الاصحدرمختار(4/266)میں ہے(ويجب مهر المثل في نکاح فاسد )وهو الذي فقد شرط من شرائط الصحة کشهوددرمختار مع رد المحتار(4/267)میں ہےویثبت (لکل واحد منهما فسخه ولو بغیر محضر من صاحبه ،دخل بها او لا)فی الاصح خروجا عن المعصیة فلاینافی وجوبهقوله(فلاینافی وجوبه)قال فی النهر:وقول الزيلعي ولکل واحدمنهما فسخه بغير محضر من صاحبه لايريد به عدم الوجوب اذ لاشک في انه خروج من المعصية والخروج منها واجب بل افادة انها امر ثابت له وحده

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved