• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ کے انتقال کے بعد بچی کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے

استفتاء

1۔ ایک دو سالہ بچی کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، بچی کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ بچی کی پرورش میں کروں اور نانی اور دادی میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ ہم کریں جبکہ دادی کی مصروفیات بنات کے مدرسے میں پڑھانے کی وجہ سے زیادہ ہیں۔ اس صورت میں بچی کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟

2۔ بچی کی والدہ جس کا انتقال ہوا ہے اس کے ورثاء میں اس کا خاوند، ایک بیٹی اور والدین زندہ ہیں۔ شریعت کے مطابق کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں والدہ کے انتقال کے بعد بچی کی نو سال کی عمر تک پرورش کی زیادہ حقدار نانی ہے، پھر نانی کے بعد دادی کا حق ہے۔ نو سال کے بعد نانی یا دادی کو روکنے کا حق نہیں ، اس کے بعد باپ لے سکتا ہے تاکہ وہ بچی کی حفاظت کرے۔

درِ مختار (5/259) میں ہے:باب الحضانة: (تثبت للأم) النسبية ………. (ثم) أي بعد الأم بأن ماتت أو لم تقبل أو سقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وان علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور

نیز (5/274) میں ہے:(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية ……… (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى ………. (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.

وقال الشامي تحته: قوله: (كذلك) أي في كونها أحق بها حتى تشتهى. قوله: (وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية

مسائل بہشتی زیور (2/143) میں ہے:’’میاں بیوی میں جدائی ہوگئی اور طلاق مل گئی اور گود میں بچہ ہے تو اس کی پرورش کا حق سب سے پہلے ماں کو ہے۔ ماں لینے پر تیار نہ ہو [یا میاں بیوی میں جدائی تو نہیں ہوئی لیکن ماں کا انتقال ہوگیا ، کما مر عن الدر المختار[ اور دوسرے لینے پر تیار ہوں تو پھر پرورش کا حق نانی کو پھر پڑنانی کو اس کے بعد دادی کو ہے۔ یہ نہ ہوں تو سگی بہنوں کو حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پرورش کریں ۔ اس کی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلی بہنوں کو مگر جو ماں شریک بہنیں ہیں وہ پہلے ہیں پھر باپ شریک بہنیں ہیں ۔ پھر خالہ اور پھرپھوپھی۔ اگر ان عورتوں میں سے کوئی نہ ہوتو پھر باپ زیادہ مستحق ہے ۔۔۔۔۔۔ الی قولہ بعد ورقۃ۔۔۔۔۔ اور لڑکی کی پرورش کا حق نو برس تک رہتا ہے، جب نو برس کی ہوگئی تو باپ لے سکتا ہے تاکہ وہ لڑکی کی حفاظت کرے۔ اب عورت کو روکنے کا حق نہیں۔‘‘

2۔ مذکورہ صورت میں فوت ہونے والی خاتون کے ترکہ کو تیرہ (13) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے تین (3) حصے خاوند کو، چھ (6) حصے بیٹی کو، دو (2)حصے والد کو اور دو (۲)حصے ہی والدہ کو ملیں گے۔ تقسیم کی صورت یوں ہوگی:

مسئلہ:12۔ عول:13

میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

خاوندبیٹیوالدوالدہ
ربعنصفسدس مع العصبہسدس
1/41/21/61/6
3622

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved