• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انتہائی غصہ میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

بیوی کا بیان:

میرا اور میرے میاں کا گھر میں جھگڑا ہوا اور جھگڑا بہت بڑھ گیا اور بہت غصے میں آیا اور گھر کی چیزیں بھی توڑیں  مثلاً گلاس وغیرہ پھینکے اور اسٹینڈ بھی گرائے بہت شدید غصے کی حالت میں تین (3) بار طلاق، طلاق ،طلاق کا لفظ دوہرایا۔ یہ آج سے 3ماہ پہلے بات  ہوئی تھی، 2دن بعد اپنی normal   حالت میں آنے  کے بعد مجھے sorry   کہنے آئے۔ تو پھر میں نے بتایا کہ آپ نے کیا الفاظ بولے، اس پر اُس نے کہا مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہ میں نے غصے میں کیا کہا۔ میرے میاں اکثر لڑائی میں اپنے کہے ہوئے لفظ اور باتیں بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا (Mind Out of Control)  ہوجاتا ہے  یعنی تھوڑ سا ذہنی مریض کہہ لیں ۔ میں اُس وقت حیض کی حالت میں تھی اور  free(پاک) ہونے کے بعد ہم نے رجوع بھی کیا اور ہم Normallyرہ رہے تھے۔ یہ Last17دسمبر میں سب ہوا، اور  Last Time پھر  ’’تو ، تو ، میں ،میں ‘‘ ہوئی تو میں یہاں اپنے والدین کے پاس آئی اور یہ طلاق والی بات بھی کھولی۔ کیونکہ  ہم اکیلے رہتے ہیں، میرے ساس سسر کی death  ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے وہاں ہمارے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ ذہنی مریض اس وجہ سے ہیں  کہ یہ اکیلے بیٹے ہیں اور 3بہنیں ہیں، ایک تو اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ اولاد نہیں ہوتی، کیونکہ ان میں  Problem  تھی تو علاج کروارہے ہیں، 6سال شادی کو ہوگئے ہیں، صرف اور صرف اولاد اور اپنے علاج کی وجہ سے زیادہ   hypar(غصہ) ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بات نہیں۔

یہ بتا دیں کہ کیا واقعی طلاق  ہوچکی ہے؟ اور کیا دوبارہ صلح ہو سکتی ہے؟

شوہر کا بیان:

میں حلفاً بیان دیتا ہوں کہ جس وقت یہ معاملہ پیش آیا اس وقت میں ہوش میں نہیں تھا، میں نے موبائل بھی توڑا اور گلاس بھی توڑے اور کچھ پتہ نہیں چلا کہ میں نے کیا کچھ کیا اور کیا کچھ نہیں،  اور نہ ہی مجھے طلاق دینے کا علم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر واقعتاً شوہر سے خلاف عادت افعال  یعنی گلاس توڑنا اور سٹینڈ پھینکنا اور موبائل توڑنا صادر ہوئے ہیں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق دیتے وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر سے خلافِ عادت اقوال و افعال صادر ہونے لگیں تو ایسے غصے میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔

درمختار مع رد المحتار(4/439) میں ہے:قلت الحافظ ابن القيم رسالة فى طلاق الغضبان قال فيها انه علي ثلاثة اقسام…… الثاني ان يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يزيده  فهذا لا ريب انه لا ينفذ شئي من  اقواله……فالذى ينبغي التعويل عليه فى المدهوش و نحوه إناطة الحکم بغلبة الخلل فى أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته، و کذا يقال فيمن اختل علقه لکبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام فى حال غلبة الخلل فى الأقوال و الافعال لا تعتبر أقواله و إن کان يعلمها و يريدها لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراک صحيح کما لا تعتبر من الصبي العاقل..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved