• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا تحریری طلاق کے وقوع کے لیے شوہر کے دستخط  کر دینے کے بعد اس پر قانونی مہر لگنا بھی ضروری ہے؟

استفتاء

میری شادی کو 12 سال گزر گئے ہیں، میرے شوہر کی دو شادیاں ہیں، روز کی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے میرے شوہر نے دو صفحات پر تین تین بار طلاق لکھ کر  بھیج دی (جس کی کاپی ساتھ لف ہے) پھر کال پر  بھی کہا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو، جب میکے جانا چاہو جا سکتی ہو‘‘ پھر اپنے ماں باپ کو کال کر کے بتایا کہ میں نے طلاق دے دی ہے، اپنے دیگر رشتہ داروں کو کال کرکے بتایا۔ ڈیڑھ سال بعد پاکستان آئے اور اپنی دوسری بیوی کے پاس رہنے لگے، میں ان کے والدین کے گھر تھی، انہوں نے دو مہینے کوئی رابطہ نہیں کیا، پھر گھر کے کچھ افراد ان کے پاس گئے کہ گھر کیوں نہیں آتے تو انہوں نے کہا کہ میں نے بیوی کو کب سے فارغ کیا ہوا ہے تم نے اس کو اس گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ بالآخر گاؤں میں پنچایت بیٹھی جس میں شوہر نے اقرار کیا کہ یہ تحریر میں نے لکھی ہے، میں نے طلاق دی ہے۔ مجھے میرے گھر والے لے گئے، اس کے ہفتہ بعد میرے شوہر نے یہ بات کہنا شروع کر دی کہ طلاق کے صفحات پر قانون کی مہر نہیں لگی اس لیے ہماری طلاق نہیں ہوئی، تم میری بیوی ہو۔ اور دو افراد کے ساتھ ہمارے گھرآگئے اور  مجھے ساتھ لے گئے، اور پھر ازدواجی تعلق بھی کیا اور یہ سب کچھ زبردستی تھا۔ اس بارے میں بہت سے لوگوں سے پوچھا تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ طلاق ہوگئی ہے لیکن شوہر بضد ہیں کہ نہیں ہوئی، آپ اس بارے میں اپنی رائے دے دیں۔میں شرعی اور اسلامی طرز پر سوال کا جواب چاہتی ہوں کہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ کیا ازدواجی رشتہ رکھنا حلال ہے؟

دو صفحات کی عبارتیں درج ذیل ہیں:

اپنے پورے  ہوش حواس، بنا کسی جبر کے یہ فیصلہ کر رہا ہوں کہ میں ***کو اپنے شرعی رشتہ سے آزاد کر رہا ہوں بچوں کی کفالت کا میں شرعی اور آئینی طور پر ذمہ دار ہوں جو میں ادا کرتا تھا اور جب تک ان کا آئینی حق ہوا ادا کرتا رہوں گا۔ ان کی پرورش کا فیصلہ ** کی رضامندی پر ہے، وہ اپنے پاس رکھنا چاہے تو بھی مجھ کو اعتراض نہیں، ان کا خرچہ ادا کروں گا جو شرعی اور آئینی فیصلہ ہوا اس کے مطابق، اگر وہ بچوں کو چھوڑ دے تو بھی میں اپنے بچے اپنے پاس رکھوں گا، مجھ کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

میں غلام*** آپ کو اپنی ساتھ شرعی رشتہ سے آزاد کرتا ہوں۔

میں آپ کو ** طلاق دیتا ہوں،

میں آپ کو ** طلاق دیتا ہوں،

میں آپ کو ** طلاق دیتا ہوں۔

(دستخط) غلام مصطفیٰ‘‘

’’ میں**ر، ساکن خانوالی، حال مقیم عمان، اپنے پورے ہوش و حواس، بنا کسی جبر کے سمیرا**** آپ کو اللہ اور اس کے رسول کو حاضر مان کر اپنا شرعی حق رکھتے ہوئے اپنے نکاح سے آزاد کرتا ہوں، آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں

وضاحت مطلوب ہے کہ: شوہر کا موقف معلوم کرنے کے لیے اس کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جوابِ وضاحت: میں شوہر کا رابطہ نمبر ارسال نہیں کرسکتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر جب طلاق کی باقاعدہ تحریر  پر دستخط کردے اور اس کو اس بات کا اقرار بھی ہو کہ یہ تحریر اسی کی ہے تو اس تحریر سے شرعاً دستخط کرتے ہی وقت طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ اس پر قانونی مہر وغیرہ نہ لگی ہو۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو جو طلاق کی باقاعدہ تحریر (کتابتِ مرسومہ) بھیجی تھی چونکہ شوہر نے اس پر دستخط کردیئے تھےاور اس  کو اس تحریر کا اقرار بھی ہے اس لیے اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز نہیں رہتا۔ مذکورہ صورت میں تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی نے جو ازدواجی تعلق قائم کیا وہ ناجائز اور حرام تھا اس لیے میاں بیوی اس پر توبہ واستغفار کریں اور فورا علیحدگی اختیار کریں۔

تبیین الحقائق (6/218) میں ہے:ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب فيكون هذا كالنطق فلزم حجة

بدائع الصنائع (3/174) میں ہے:الكتابة المرسومة بمنزلة الخطاب فصار كأنه خاطبها بالطلاق عند الحضرة فقال لها أنت طالق أو أرسل إليها رسولا بالطلاق عند الغيبة فإذا قال ما أردت به الطلاق فقد أراد صرف الكلام عن ظاهره فلا يصدق ………….. ثم إن كتب على الوجه المرسوم ولم يعلقه بشرط بأن كتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق وقع الطلاق عقيب كتابة لفظ الطلاق بلا فصل لما ذكرنا أن كتابة قوله أنت طالق على طريق المخاطبة بمنزلة التلفظ بها

نوٹ: ہم نے مذکورہ جواب بیوی کے بیان کے مطابق لکھا ہے لہٰذا اگر شوہر کا بیان مذکورہ صورتحال سے  مختلف ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved