• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سو سے زائد گھروں کی آبادی والے گاؤں میں جمعہ کا حکم

استفتاء

کالاڈھاکہ موجودہ تورغرکے قبیلہ حسن زئی کے وسطی علاقے میں دریا کے کنارے تین گائوں  آباد ہیں ان میں سے ہر ایک گائوں الگ نام سے موسوم ہے ۔وہ یہ ہیں پلوسہ ،نیوکلے ،گھڑی جبکہ نیوکلے باقی دونوں گائوں کے درمیان واقع ہے اور عرف میں ہر ایک کو الگ گائوں سمجھا جاتا ہے ،اس بارے میں کسی بوڑھے بچے اور سمجھ دار کی رائے میں فرق نہیں اور ان تینوں گائوں کی  آبادیاں نہ تو حقیقی طور متصل ہیں اور نہ حسی طور پر بلکہ پلوسہ اور نیوکلے کے درمیان تقریبا 234اور نیوکلے لاور گھڑی کے درمیان تقریبا دو سو چوالیس گز کی خالی زمین کافاصلہ ہے اور اس فاصلے والی زمین میں گندم اور مکئی کی کاشت ہوتی ہے ہر گائوں کے رہنے والوں کا قبیلہ کا متعلقہ خیل یا ذیلی شاخ الگ ہے ۔البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ گائوں نیوکلے کا گرلز پرائمری اسکول اس کے متصل ایک گلی یا کم وپیش کے فاصلے پر پلوسہ کی زمین کی حدود میں اس وقت بنا ہے جس وقت قبیلے کے دستور کے پیش نظر زمینوں کی غیر حتمی تقسیم کے مطابق یہ زمین نیوکلے کے نام تھی جواب حتمی تقسیم میں پلوسہ کی ملکیت ہو گئی ۔اسی طرح گائوں گھڑی کا ایک اسکول اسی ہی کی حدود میں مگر اس سے قدرے فاصلے پر نیوکلے کے قریب بنا ہے۔

مذکورہ تینوں گائوں جن باتوں میں مشترک ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :

۱۔کسی بھی گائوں میں ڈاکخانہ پولیس تھانہ یا پولیس چوکی نہیں ہے ۔

۲۔کسی بھی گائوں میں بازار کے طرز پر دوکانیں نہیں ہیں بلکہ مختلف گلیوں میں ہیں ۔

۳۔کسی بھی گائوں میں غیر معمولی بیماریوں اور ایمر جنسی کیس پیش  آنے کی صورت میں علاج ومعالجہ کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ایسے حالات میں کسی قریبی شہر جانا پڑتا ہے البتہ معمول کی بیماریوں کا علاج ضرورموجود ہے۔

۴۔شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں ہر ایک گائوں کو گائوں ہی لکھا جاتا ہے نہ کہ قصبہ۔

۵۔ضرورت کی عام چیزوں میں سے اکثر چیزیں ہر گائوں میں مل جاتی ہیں جو ان سے کم  آبادی وغیرہ رکھنے والے گائوں میں بھی مل جاتی ہیں۔مثلا  آٹا ،گندم چاول چینی گھی کپڑا جوتا اور دیگر عام چیزیں ۔البتہ ان میں سے بہت سے چیزیں ایک ہی دکان میں مل جاتی ہیں جیسا کہ عام دیہات میں ہوتا ہے بعض چیزوں کے لیے الگ دوکانیں نہیں ہوتیں جیسا کہ شہروں میں ہوتا ہے ۔

۶۔کسی بھی گائوں میں مرغیوں کے علاوہ گائے بھینس وغیرہ کا تازہ گوشت نہیں ملتا ۔البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی دوکاندار کسی قریبی قصبہ یا شہر سے کچھ گوشت یا اس مختلف چیزیں لا کر فریج میں رکھ دے اور پھر فروخت کرتا رہے ۔اسی طرح عیدین یا کسی خاص موقع پر چند افراد مل کرونڈئی کے نام سے جانور ذبح کرتے ہیں جس کا گوشت لوگ خریدلیتے ہیں لیکن بعض رہ بھی جاتے ہیں ۔نیز تازہ دودھ وغیرہ کی بھی کوئی دکان موجود نہیں ۔البتہ ملک پیک کے ڈبے ضرور ملتے ہیں ۔

۷۔مشینری مثلا جنریٹر انجن ٹریکٹر وغیرہ کی معمولی نوعیت کا کام شائد ہوسکے لیکن زیادہ اور اہم کام کرانے کے لیے کسی شہر ہی جانا پڑتا ہے۔

۸۔علاقے کے دیگر گائوں کی طرح ان تینوں میں سے ہر گائوں کے کچھ لوگ بھی ذرائع معاش نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اہل وعیال کے ساتھ جاکر کراچی ودیگر شہروں میں  آباد ہو گئے ہیں۔اور پندرہ سال کے عرصے یا اس سے کم یا زیادہ عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں ان میں سے کچھ نے ذاتی مکانات جائیداد اور کاروبار بنا رکھے ہیں اور کچھ کرایہ کے مکانوں میں رہ رہے ہیں گائوں چھوڑنے والوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جن کا گائوں میں گھر یا زمین نہیں اس لیے ان کادوبارہ گائوں  آ کر  آباد نہ ہونا ظاہر ہے (الاماشاء اللہ)اور کچھ وہ لوگ ہیں جن کے گھر اور زمین یا دونوں یا کسی ایک میں حصہ ہے اور وہ گھر یا زمین ان لوگوں کے گھرانوں خاندانوں کے کچھ افراد یا باہر سے  آنے والے کچھ لوگوں کے زیر استعمال ہے لیکن ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیںجو سالوں بعد گائوں  آجاتے ہیں تو قصر نماز پڑھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گائوں کی سکونت مستقل طور پر ترک کرچکے ہیں اور اگر ترک سکونت نہ بھی کرچکے ہوں اور اگر تب بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ لوگ  آئندہ وقت میں رہنے کے لیے واپس گائوں  آئیں گے یا نہیں اور اگر  آئیں گے تو کب  آئیں گے اور اگر بالفرض  آبھی جاتے ہیں تو گائوں میں موجود گھروں میں ان سب کا سماجانا مشکل ہے بلکہ نئے گھر بنابنا پڑیں گے ۔

مذکورہ تینوں گائوں میں سے ہر ایک کی  آبادی وغیرہ کی انفرادی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۱۔پلوسہ

موجودہ  آبادی یعنی افراد 1662،گھر 184،تین پرائمری اسکول ،د مدارس،چھوٹی بڑی چار مساجد ،دوکانیں دس پرچون ،پانچ چکی ،دو نائی ایک موچی ایک ٹیلر اور ایک لکڑ آری مشین جبکہ ڈاکٹر دن کو ہوتا ہے رات کو نہیں ۔

۲۔نیوکلے

موجودہ  آبادی یعنی افراد بارہ سو ،نو دوکانیں ،ایک سو بیس گھر ،تین اسکول ،ایک مسجد ،ایک مدرسہ اور bhuہسپتال ۔

۳۔گھڑی

موجودہ  آبادی 1226،نوے گھر ،تین پرائمری اسکول ،ایک ہائر سیکنڈری اسکول ،دوکانیں ،دو  آٹا چکی سمیت تیرہ ۔

مذکورہ بالاتفصیلات کی روشنی میں درج ذیل امور کی وضاحت اور جواب مطلوب ہے :

۱۔ مذکورہ تینوںیا کسی ایک گائوں میں نماز جمعہ قائم کرنا شرعا صحیح ہے یا نہیں ؟

۲۔ عرفا ،اسما اور حسا الگ الگ ہونے کے باوجود صحت جمعہ کیلیے درکار شرط (مصریت)کو پورا کرنے کے لیے پلوسہ کی زمین میں واقع نیوکلے کے اسکول اور گھڑی کی اپنی زمین میں واقع نیوکلے کے قریب اسکول کی بنیاد پر ان تینوں گائوں کو ایک شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

۳۔            عرف نام میں الگ ہونے اور درمیان میں مزروعہ زمین کے باوجود اگر بالفرض تینوں گائوں کی  آبادیاں حسی طورپر متصل نظر  آتی ہوں تو جمعہ کی نماز ہو صحیح ہو گی یا نہیں ؟نیز حسی طور پر اتصال کا معیار کیا ہے؟

۴۔            مذکورہ بالا مشترک امور میں سے نمبر  آٹھ کی تفصیل کے مطابق کراچی وغیرہ میں مقیم لوگوں ،گھرانوں ،کو گائوں کے چھوٹے بڑے ہونے کی نوعیت جاننے کے لیے گنا جائے گا یا نہیں ؟

نوٹ:

واضح رہے کہ مذکورہ علاقے کے ننانوے فیصد سے زیاد ہ لوگ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اکثر لوگوں میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے یا پیدا کردی گئی ہے اور کچھ علماء کرام بھی جمعہ نماز قائم ہونے کے حق میں ہیں اس لیے سوال کو کچھ تفصیل سے مرتب کیا گیا ہے طوالت کے لیے پیشگی معذرت ۔

وضاحت مطلوب ہے کہ :

کیا نماز جمعہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں یا پہلے سے قائم ہے ؟

جواب وضاحت :

مذکورہ گائوں میں سے صرف گائوں نیوکلے میں عرصہ ڈھائی ماہ سے ایسے فتوی سے جمعہ کا  آغاز ہوا ہے جس کے سوال وجواب دونوں پر اس علاقے کے معتمد علماء ومفتیان کرام واداروں کے تحفظات ہیں جبکہ جواز کا فتوی دینے والے اپنے جواب سے رجوع نہ کرنے پر مصر ہیں۔نیز جامعہ اشرفیہ لاہور سے اسی سوال (جس پر جواز کا فتوی دیا گیا )کا جواب عدم جواز کے صورت میں  آیا ،اب ہم نے ایک تفصیلا سوال ملک کے مشہور جامعات میں جمع کرانے کا ادرہ کیا تو اس سلسلہ میں  آپ حضرات کے ہاں بھی سوال بھیجا امید ہے تسلی بخشش جواب سے بھر ور فرمائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی میں اگر چہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر یا بڑا قصبہ ہونا ضروری ہے لیکن خود شہر یا بڑے قصبے کی حد بندی کیا ہے اس میں خود فقہائے حنفیہ کے اقوال مختلف ہیں جن کی تفصیل بدائع الصنائع میں موجود ہے ا۔ن مختلف اقوال  میں سے اگر چہ بعض اقوال کو ترجیح حاصل ہے لیکن موجودہ دور میں جمعہ کے سلسلے میں حالات وواقعات کے پیش نظر ہماری رائے یہ ہے جس کسی گائوں یا بستی میں ان اقوال میں سے کسی قول کے مطابق یا امام شافعی اور امام مالک کے قول کے مطابق بھی جمعہ قائم ہو سکتا ہو تو ایسے مقام پر جاری جمعہ کو روکا نہ جائے اور اگر کہیں لوگ اس طرح کے گائوں یا بستی میں جمعہ جاری کرنے پر مصر ہوں تو انہیں بھی نہ روکا جائے ۔ آپ نے جن تین گائوں کے تفصیلی حالات ذکر کیے ہیں ان میں اول تو فقہ حنفی ہی کے بعض اقوال کے مطابق جمعہ درست ہے اوراگر فقہ حنفی کے مطابق درست نہ بھی ہو تو فقہ شافعی کے مطابق تو جمعہ درست ہونے میں کوئی اشکال نہیں ۔

چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:

1.أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه ،  وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها ، وقال الشافعي المصر ليس بشرط للوجوب ولا لصحة الأداء  بهم الجمعة.

2.أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام ، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة ، وفي رواية قال:إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة ، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها ، وقال بعض أصحابنا : المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى ، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال : أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة ، وقال سفيان الثوري : المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة .

 

  1. وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما ، وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحكمه ( بحشمه ) وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح .

4۔            (کفایت المفتی:249-8/1)

سوال :ایک موضع میں تقریبا تیس  آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں دوبار بڑا بازار لگتا ہے، سامان ضروری مثلا کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں اب اس موضع میں شرعا جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب :اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تواب اس کو بند کرنے میں مذہبی ودینی فتنہ ہے اس لیے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلے میں امام شافعی ؒ کے قول یا امام مالک ؒ کے قول کے موافق عمل کرلینا جائز ہے ۔

وایضا (249/1)فیہ :

سوال :بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز ہے توفقہائے کرام کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ ظہر احتیا طی ادا کرنا کیسا ہے ؟

جواب :چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنیفہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تعریف میں یہاں تک تنزل کیا ہے کہ مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا تک لے  آئے۔حالانکہ ان کے اپنے اقرار (ھذایصدق علی کثیرمن القری )سے تعریف بہت سے قری پر صادق  آتی ہے۔پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضی یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگر چہ امام شافعی ؒ کے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved