• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کےنصاب کاحوالہ (۲)گھر میں پالے ہوئے جانوروں پر زکوۃ کاحکم

استفتاء

۱۔ حضرت اس بات کی دلیل مطلوب ہے کہ آدمی جب صاحب نصاب ہو جائے، سونا چاندی اور پیسے سب چیزوں پر زکوٰۃ لاگو ہو گی اور سونے کا ساڑھے سات تولہ ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی چاندی کا ساڑھے باون تولہ ہونا ضروری ہے۔

۲۔ اس بات کی دلیل بھی مطلوب ہے کہ سونے اور چاندی میں سے اس چیز کو نصاب بنایا جائے گا جو کم قیمت ہو کیونکہ یہ انفع للفقراء ہے۔

۳۔            نیز و ہ جانور جو گھر میں پالے جاتے ہیں اور گھر کا چارہ کھاتے ہیں ان کے لیے کیا قانون ہے؟ ان کی تعداد خواہ کتنی ہی ہو جائے کیا ان پر زکوٰۃ نہ لگے گی کیونکہ زکوٰۃچرنے والے جانوروں پر ہے اور اگر ان کو رکھنے میں تجارت وغیرہ کی نیت ہو تو زکوٰۃ لگتی ہے؟ لیکن اگر تجارت وغیرہ کی نیت نہ ہو اور ان کی تعداد (پیداوار) بڑھتی رہے اور ضرورت پر فروخت کیا جاتا رہے تو پھر کیا حکم ہے؟ گذارش ہے کہ ہمارا واسطہ غیر مقلدین کے ساتھ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ اس بات کی دلیل ایک حدیث ہے جو حکما مرفوع ہے ۔حضرت بکیربن عبداللہ بن اشج سے مروی ہے :

من السنة ان يضم الذهب الي الفضة لايجاب الزکاة ومطلق السنة ينصرف الي سنة رسول الله ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (في المبسوط للسرخسي :259/2طبع علميه)

ترجمہ:زکوۃ واجب کرنے کے لیے سونے کو چاندی کے ساتھ ملانا سنت ہے اور سنت کا لفظ جب بغیر کسی قید کے بولا جائے تو اس سے سنت رسول ﷺ مراد ہوتی ہے۔

۲۔ زکوۃ چونکہ فقراء کے فائدے کے لیے دی جاتی ہے اس لیے نصاب میں انفع للفقراء کو دیکھا جاتا ہے اور یہی اس کی دلیل ہے۔

۳۔            ایسے جانوروں پر زکوۃ نہیں کیونکہ حدیث کی رو سے جانوروں پر زکوۃ کے لیے ان کا سائمہ ہونا ضروری ہے اور سائمہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کو چارہ ڈالنا نہ پڑے بلکہ وہ خود سے چارہ کھا کر گذارہ کرتا ہو۔

في المعجم الکبيرللطبراني :رقم الحديث:984)

عن بهز بن حکيم عن ابيه عن جده قال سمعت رسول الله ﷺ يقول :في کل اربعين من الابل سائمة بنت لبون۔۔۔

ترجمہ:چرنے والے ہر چالیس اونٹوں میں دوسالہ اونٹنی ہے۔

ہاں اگر تجارت کی نیت سے خریدے ہوں اور تجارت کی نیت باقی ہو تب ان پر زکوۃ آئے گی ،اس صورت میں یہ جانور مال تجارت کے حکم میں ہو جائیںگے۔چنانچہ اعلاء السنن ص:64/9)میں ہے:

عن سمرۃ بن جندب قال :امابعد !فان رسول اللہ ﷺ کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی یعد للبیع۔(ابوداود :ص225/1)۔۔۔

ترجمہ:        حضرت سمرہ بن جندب ؓنے خطبے میںفرمایا :بیشک رسول اللہ ﷺہمیں اس مال کی زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے جو فروخت کے لیے ہو

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved