- فتوی نمبر: 23-370
- تاریخ: 29 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > رشوت
استفتاء
سوال (1)سرکاری محکمہ جات /دفاتر کے ساتھ کاروبار یعنی پارٹس یا دیگر اشیاء سپلائی کرنے کے عوض میں کسی پرائیویٹ فرم یا اشخاص کو کتنا منافع رکھنا جائز ہے؟
سوال (2)اگر ایک پرائیویٹ فرم یا شخص جو کہ گورنمنٹ کے ٹیکس ادارہ سے رجسٹر ہو سرکاری محکمہ کو کچھ اشیاء ان کی ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی کرتا ہےسپلائر/ فارم سپلائی کردہ چیز کی عوض میں بل وغیرہ بنا کر سرکاری ادارہ کو جمع کروا دیتا ہے تاکہ اس کی رقم اس کو واپس مل سکے چونکہ اداروں میں اہلکاران جوکہ سرکاری خزانہ سے وابستہ ہیں سپلائرز کے بل میں سے چند فیصد غیر قانونی /ناجائز طور پرکٹوتی کرتے ہیں لہذا نقصان سے بچنے اور جائز منافع رکھنے کے لیے سپلائر چند فیصد بل مزید میں شامل کر دیتا ہے تاکہ اسے جائز منافع مل سکےمثلا سپلائر نے ایک عدد پنکھا مارکیٹ سے خریدا 1000 روپےسپلائر نے سرکاری ادارہ کو دیا1200 سو روپے میں منافع200 سو روپے ہوا اوپر200 سو روپے جو منافع ہے اس میں سے 150روپے سرکاری اہلکار رشوت یا ناجائز طور پر سپلائر سے کاٹ لیتے ہیں لہذا سپلائر فرم اگر 1000روپے کی چیز 1500روپے میں دے تاکہ اگر 150روپے کٹوتی ہو بھی جائے تب بھی سپلائر کو نقصان نہ ہو کیا ایسا کاروبار کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)شریعت میں نفع لینے کی کوئی حد متعین تو نہیں ہے ، البتہ اسلام نے ہمدردی اور خیر خواہی کی تعلیم ہر معاملہ میں دی ہے۔
(2) اس حد تک ریٹ زیادہ لگانے کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ سرکاری خزانہ بھی اجتماعی ملکیت ہے جس کا احساس ضروری ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ آپ کے لیے مذکورہ صورت میں رشوت دینے کی گنجائش ہے یا نہیں، اس کے لیے تفصیل لکھیں کہ رشوت کے بغیر آپ کا کتنا حرج ہوگا اور متبادل ہے یا نہیں۔
شرح المجلہ رستم(1/73)میں ہے: الثمن المسى هو الثمن الذي یسميه و یعنيه العاقدان وقت البیع بالتراضي سواء کان مطابقاً لقیمة الحقیقیة أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved