• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پراپرٹی سکیم کا ڈیلروں سے قرضہ لیکر نفع دینے کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

میرا نام *** ہے میں***میں پراپرٹی کا کام کرتا ہوں میں وہاں پر کمپنی**میں رجسٹرڈپراپرٹی ڈیلر ہوں  ہمارے مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ سوسائٹی کو رقم کی ضرورت پڑتی رہتی ہے چنانچہ وہ ڈیلروں سے اس کا تقاضہ کرتے ہیں تو  ہم سوسائٹی میں ایڈوانس رقم جمع کرادیتے ہیں سوسائٹی ہر دو، چار ماہ کے بعد  ایڈوانس جمع شدہ رقم کے عوض  ہمیں پلاٹ دیتی ہے جوہم اپنے گاہکوں کو سیل کرتے ہیں۔

اس دفعہ سوسائٹی نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ہم سے رقم لیکر اس کے عوض ایک پیپر فارم دے رہی ہے جس کوایڈجیسٹمنٹ   فارم کا نام دیا گیا  ہے  اس فارم کی قیمت ایک لاکھ روپے ہےجو  اس پر درج ہے سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اس لاکھ کے بدلے میں بعد میں ڈیڑ ھ لاکھ شمار ہوں گے لیکن آپ اس ڈیڑھ لاکھ کو سوسائٹی سے  فی الحال  کیش نہیں کروا سکتے البتہ   اس فارم کو سوسائٹی کی کسی بھی پراڈکٹ (پیداوار یعنی پلاٹ وغیرہ)میں قسطوں کی مد میں جمع کرا سکتے ہیں اور سوسائٹی اس ایک لاکھ کے فارم کو ڈیڑھ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ میں ایڈجیسٹ  کرے گی اب اس صورتحال میں پوچھنا یہ ہے کہ:

کیا اس طرح سوسائٹی سے ایک لاکھ میں وہ فارم خرید کر بعد میں اس کو زیادہ  میں ایڈجسٹ کروانا جائز ہے۔

نوٹ: اس بارے میں  پہلے جو ہمیں معلومات سوسائٹی سے ملی تھیں اس کے مطابق سوسائٹی 3 سے 4 ماہ کے بعد اسے ڈیڑھ لاکھ میں شمار کرے گی اور اس وقت چاہے اگلی خریداری میں اسے ایڈجسٹ کروا سکتا ہے یا پہلے سے خریدے ہوئے پلاٹ کی  قسطوں میں بھی  ایڈجسٹ کروا سکتا ہے۔ لیکن اب سوسائٹی نے وضاحت کردی ہے کہ یہ آفر صرف آئندہ خریدے جانے والے پلاٹوں میں کارآمد ہوگی یعنی اب جوشخص  وہ فارم خریدے گا  3 سے 4 ماہ بعد سوسائٹی اسے   صرف کسی نئے خریدے جانے والے پلاٹ میں ڈیڑھ لاکھ شمار کرے گی(وضاحت از سائل)

(2)  کیا اس ایک لاکھ والے فارم کی خریدوفروخت اس کی مالیت میں کمی بیشی کے ساتھ کرنا درست ہے یا  نہیں؟جس کی تفصیل یہ ہے کہ سوسائٹی سےپلاٹ خریدنے والوں کو جب قیمت ادا کرنی ہوتی ہے تو ڈیلر ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم سے یہ فارم (مثلا دو فارم )جنکی قیمت سوسائٹی کے نزدیک تین لاکھ بنتی ہے تو وہ ہم سے ڈھائی لاکھ میں خرید لواور سوسائٹی کے پاس اپنے پیسوں کے بدلے میں جمع کرادوتو تمہارے وہاں تین لاکھ  شمار کیے جائیں گے۔

(3)یہ کہ مندرجہ بالا دونوں صورتیں اگر درست ہیں تو ٹھیک ہے اور اگردرست  نہیں تو کیا اس کی کوئی جائز صورت ہے  یا نہیں ؟ مندرجہ بالا تینوں صورتوں کی شرعی  حیثیت کے بارے میں جواب دے کراحسان فرمائیں ۔اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)  مذکورہ صورت جائز نہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت کا خلاصہ یہ ہے کہ کمپنی کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ترتیب  انہوں نے یہ بنائی ہے کہ وہ پراپرٹی ڈیلروں سے رقم لے کر ایک فارم دیتی ہے چونکہ کمپنی کا اصل مقصدقرض لینا ہوتا ہے اور  فارم بھی کوئی ایسی چیز نہیں  کہ اس رقم کو فارم کی قیمت بنایا جاسکے  نیز فی الحال وہ رقم کسی چیز کی قیمت یا اجرت کے طور پر بھی شمار نہیں  ہو سکتی    ہے اس لیے وہ رقم قرض ہی شمار ہوگی جس پر کمپنی  کی طرف سے  یہ آفر ہے کہ   3 ، 4 ماہ بعد جب کوئی پلاٹ خریدے گا اور اس کی قیمت میں یہ فارم جمع کروائے گا  تو کمپنی اسے رعایت دے گی    یعنی ایک لاکھ کے فارم کو ڈیڑھ لاکھ شمار کرے گی  جبکہ قرض کی بنیاد پر ملنے والا فائدہ سود ہوتا ہے جو کہ حرام ہے ۔

(2)) مذکورہ صورت بھی جائز نہیں۔

توجیہ:جب اس طرح کمپنی سے فارم لینا جائز ہی نہیں تو اسے  آگے لوگوں کو بیچنا بھی جائز نہیں نیز چونکہ فارم کے پیچھے اصل تو رقم  ہوتی ہے جس کو کمی بیشی کے ساتھ بیچا جائے گا جبکہ ایک ہی ملک کی کرنسی  کا آپس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ بھی سود ہے نیز مذکورہ صورت میں بیع الدین من غیر من علیہ الدین بھی لازم آتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔

(3)فی الحال ہمارے ذہن میں اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔

فتاوي شامی (413/7) میں ہے:كل قرض جر نفعا حرام۔۔۔لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فتكون ربا وهذا أمر عظيم ۔الدر المختار (6/ 394) میں ہے:( و ) كره ( إقراض ) أي إعطاء ( بقال ) كخباز وغيره ( دراهم ) برّا لخوف هلكه لو بقي بيده يشترط ( ليأخذ ) متفرقا ( منه ) بذلك ( ما شاء ) ولو لم يشترط حالة العقد لكن يعلم أنه يدفع لذلك شرنبلالية لأنه قرض جر نفعا وهو بقاء ماله فلو أودعه لم يكره لأنه لو هلك لا يضمن وكذا لو شرط ذلك قبل الإقراض ثم أقرضه يكره اتفاقا قهستاني و شرنبلاليةبدائع الصنائع (5/ 148)ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع  ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيعمسائل بہشتی زیور (جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 274 )میں ہے:مختلف کرنسیوں کا تبادلہ: حکومت کی جانب سے مقرر کی ہوئی شرح تبادلہ سے کم و بیش قیمت پر روپوں کے بدلے دوسرے ملکوں کی کرنسی خرید سکتے ہیں ۔البتہ ایک ہی ملک کی کرنسی مثلا پاکستانی روپوں کے دو طرف تبادلہ میں برابری ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved