• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جن لوگوں کے بارے میں معلوم نہ ہو  کہ ان کی کمائی کیسی ہے ان کا کوئی جائز کام کر کے تنخواہ لینے کا حکم

استفتاء

ایک ویب سائٹ ہے جس کانام "فری لانسر” ہے جو کہ آسٹریا کی ہے۔ اس ویب سائٹ میں دنیا بھر سے لوگ کام کر رہے ہیں جیسا کہ ویب ڈیزائنگ، ڈیٹا انٹری وغیرہ۔ وہ ہم سے قیمت مقرر کر لیتے ہیں لیکن یہ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ انکا روزگار جس میں سے وہ ہمیں ہمارے کام کی قیمت دے رہے ہیں جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ غیر مسلم ہیں۔ تو کیا یہ کمائی جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ کمائی جائز ہے کیونکہ جب آپ کو  ان کے روزگار کے ناجائز ہونے کا علم نہیں تو آپ اپنے جائز کام کی قیمت (اجرت) لے سکتے ہیں۔رد المحتار علی الدر المختار، کتاب البیوع، باب المتفرقات (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 7صفحہ نمبر518) میں ہے:"دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز اخذ ربحه ما لم يعلم انه اكتسب الحرامقال ابن عابدين: قوله (جاز أخذ ربحه ) لأن الظاهر أنه اكتسب من الحلال ولوالجية وظاهره أنه لا كراهة فيه ، وتقدم في شركة المفاوضة أن أبا يوسف أجازها مع اختلاف الملة مع الكراهة ، وعلله الزيلعي هناك بأن الكافر لا يهتدي إلى الجائز من العقود”بدائع الصنائع، کتاب المضاربۃ، فصل  شرائط الرکن (طبع: مكتبہ رشیدیہ، جلد نمبر5 صفحہ نمبر112) میں ہے:” أما الذي يرجع إلى العاقدين وهما رب المال والمضارب فأهلية التوكيل والوكالة لأن المضارب يتصرف بأمر رب المال وهذا معنى التوكيل وقد ذكر شرائط أهلية التوكيل والوكالة في كتاب الوكالة ولا يشترط إسلامهما فتصح المضاربة بين أهل الذمة وبين المسلم والذمي والحربي المستأمن حتى لو دخل حربي دار الإسلام بأمان فدفع ماله إلى مسلم مضاربة أو دفع إليه مسلم ماله مضاربة فهو جائز لأن المستأمن في دارنا بمنزلة الذمي والمضاربة مع الذمي مضاربة جائزة فكذلك مع الحربي المستأمن فإن كان المضارب هو المسلم فدخل دار الحرب بأمان فعمل بالمال فهو جائز لأنه دخل دار رب المال فلم يوجد بينهما اختلاف الدارين فصار كأنهما في دار واحدة "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved