• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرائز بانڈ کا حکم

استفتاء

کیا درج ذیل فتویٰ درست ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ پرائز بانڈ پر ملنے والا انعام لینا جائز ہے یا ناجائز؟ (2) نیز پریمیئم بانڈ خریدنے اور اس پر انعام حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق و الصواب

پرائز بانڈ مال ہے اور اس کی خریداری پر قرعہ اندازی کے ذریعے ملنے والا انعام لینا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ شریعت ِ  مطہرہ نے کسی مال کے حرام ہونے کی جو صورتیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے یہاں کوئی بھی صورت متحقق نہیں۔ زیادہ سے زیادہ سود اور جوئے کا وہم ہو سکتا تھا، لیکن درحقیقت وہ بھی یہاں متحقق نہیں۔

سود اس لیے نہیں ہے کہ شرعی اعتبار سے سود بیع و قرض وغیرہ عقودِ معاوضہ میں مال کا لین دین کرنے والے دو شخصوں میں سے ایک کے لیے شرط کی گئی اس زیادتی کو کہتے ہیں، جو کسی عوض سے خالی ہو اور اس کی چار صورتیں ہیں: (1) قرض پر مشروط زیادتی (2)رباء الفضل یعنی وزنی یا کیلی(ناپ والی) چیز کو اس کی جنس کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا (3)رباء النسیہ یعنی دو ہم جنس، وزنی یا کیلی چیزوں یا صرف دو ہم جنس چیزوں یا صرف دو  وزنی یا کیلی چیزوں کی باہم بیع میں ایک  کا ادھار  ہونا (4)بیع میں ایسی شرط  لگانا، جس میں خریدنے یا بیچنے والے میں سے کسی ایک کا فائدہ ہو اور عقد بیع اس شرط کا تقاضا بھی نہ کرتا ہو، نہ اس پر عرف جاری ہو۔ ایسی شرط کو شرط فاسد کہتے ہیں اور اس کی نتیجے میں ملنے  والا نفع بھی سود شمار ہوتا ہے۔

پرائز بانڈ میں سود کی مذکورہ بالاصورتوں میں سے کوئی صورت متحقق نہیں، پہلی اس لیے نہیں کہ پرائز بانڈ کا معاملہ عقد بیع ہے، قرض نہیں ہے کہ انعام کی صورت میں ملنے والی زیادتی کو سود کہا جاسکے۔ رباءالفضل و رباء النسیہ بھی نہیں ہے، کیونکہ رباء الفضل کی تمام صورتوں اور رباءالنسیہ کی بعض صورتوں میں چیز کا وزنی یا کیلی ہونا ضروری ہے، جبکہ بانڈ عددی (گنی جانے والی) چیز ہے، وزنی یا کیلی نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رباء الفضل میں کمی، بیشی ہو یا رباء النسیہ میں ادھار، دونوں  میں یہ بات مبیع کے بارے میں ہے اور مشروط طور پر ہے۔ یعنی بالیقین کمی بیشی ہو، بالیقین ادھار ہو، جبکہ بانڈ پر ملنے والا انعام نہ تو مبیع ہے، نہ اس کا ملنا یقینی کہ اسے مشروط زیادتی یا ادھار کہا جاسکے۔ یونہی بانڈ پر ملنے والا انعام جب مشروط نہیں کہ ملنا، نہ ملنا دونوں باتیں ممکن ہیں، تو بیع میں شرط فاسد کے ذریعے سود والی صورت بھی متحقق نہیں ہوگی۔ الغرض بانڈ پر ملنے والی زیادتی انعام ہی ہے، سود کے زمرے میں کسی طرح نہیں آتی۔تنویر الابصار و درمختار میں سود کی تعریف کرتے  ہوئے فرماتے ہیں: ’’(فضل) ولوحکما فدخل رباالنسیئۃ و البیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا(خال عن عوض مشروط لاحدالمتعاقدین) ای: بائع  او مشتری، فلو شرط لغیر ہما فلیس بربا بل بیعا فاسداً (فی المعاوضۃ)۔ ملخصا‘‘  (ایسی زیادتی) اگرچہ حکما ہو، تو ادھار کا سود اور فاسد بیوع داخل ہوگئیں، تو یہ تمام سود میں سے ہیں (جو کسی عوض سے خالی ہو، وہ شرط کی گئی ہو وہ عقد کرنے والوں میں سے ایک کے لیے) یعنی بیچنے والا یا خریدنے والا، لہٰذا اگر ان دونوں کے علاوہ کسی اور شخص کے لیے شرط کی گئی تو یہ سود نہیں بلکہ بیع فاسد ہے(باہم عوض لینے دینے کے معاملے میں)

(تنویر الابصار و الدر المختار،ج7،ص:417،419، مطبوعہ کوئٹہ)ردالمحتار میں ہے: ’’قولہ (والبیوع الفاسدۃ …الخ) یظہر ذلک فی الفاسد بسبب شرط فیہ نفع لاحدالمتعاقدین مما لا یقتضیہ العقد و لا ملائمہ… التقاطا عنہ‘‘  شارح علیہ الرحمۃ کا قول(اور فاسد بیوع، آخر تک) یہ ظاہر ہوگا ایسی شرط کے سبب سے فاسد ہونے والی (بیع) میں، جس میں دو عقد کرنے والوں میں سے ایک کا نفع ہو، یعنی ایسی شرط جس کا تقاضا عقد نہ کرتا ہو اور نہ ہی وہ (شرط اس (عقد) کے مناسب ہو۔

(رد المحتار علی الدرالمختار، ج7،ص:417، مطبوعہ کوئٹہ)اسی میں ہے:  ’’قولہ (بائع او مشتر) ای: مثلاً، فمثلہما المقرضان و الراہنان‘‘  شارح علیہ الرحمۃ کا قول(بیچنے یا خریدنے والا) یعنی مثال کے طور پر، تو ان دونوں کی مثل ہیں، قرض دینے والے اور گروی رکھنے والے۔(رد المحتار علی الدرالمختار،ج7، ص:418،مطبوعہ کوئٹہ)تبیین الحقائق میں ہے: ’’کل ما کان فیہ مبادلۃ مال بمال یبطل بالشروط الفاسدہ لما روی انہ علیہ الصلاۃ و السلام ’’نہی عن بیع و شرط‘‘  والشروط الفاسدۃ ہی زیادۃ مالا یقتضیہ العقد و لایلائمہ فیکون فیہ فضل خال عن العوض و ہوالربا بعینہ، ملخصاً‘‘ ہر وہ معاملہ جس میں مال کے بدلے مال لیا، دیا جائے، وہ فاسد شرطوں کی وجہ سے باطل ہوجاتا ہے، اس روایت کی وجہ سے کہ  ’’نبی کریمﷺ نے بیع اور شرط سے منع فرمایا‘‘  اور فاسد شرطیں سود کے باب سے ہیں اور وہ مالی معاوضہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ سود، وہ ایسی زیادتی ہے جو عوض سے خالی ہو اور شروط فاسدہ کی حقیقت وہ زیادتی ہے جس کا تقاضا عقد نہ کرتا ہو اور نہ ہی وہ عقد کے مناسب ہو، پس اس میں ایسی زیادتی ہوگی جو عوض سے خالی  ہو اور وہ بعینہٖ سود ہے۔(تبیین  الحقائق، ج4، ص:542،مطبوعہ کراتشی)سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سود کی اقسام کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرض دے کر اس پر کچھ نفع بڑھا لینا سود ہے یا ایک چیز کو اس کی جنس کے بدلے ادھار بیچنا یا وہ چیزوں کہ دونوں تول سے بکتی ہوں یا دونوں ناپ سے، ان میں ایک کو دوسرے سے ادھار بدلنا یا ناپ خواہ تول کی چیز کو اس کی جنس سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا مثلاً سیر بھر کھرے گہیوں سوا سیر ناقص گیہوں کے عوض بیچنا، یہ صورتیں سود کی ہیں۔‘‘

(فتاویٰ رضویہ، ج17،ص:344، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاہور)اسی طرح بانڈ پر ملنے والا انعام جو ابھی نہیں ہے، کیونکہ جوا اس عقد کو کہتے ہیں جس میں دو طرفہ شرط ہو اور ہارنے کی صورت میں اپنی رقم کے ڈوبنے کا خطرہ ہو اور جیتنے کی صورت میں دوسرے کا مال ملنے کی امید ہو اور پرائزبانڈ کی خریداری میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی کہ نام نہ نکلنے کی صورت میں خریدار  کی رقم ضبط کر لی جائے گی، بلکہ انعام نہ بھی نکلے، اصل رقم بہرحال محفوظ ہوتی ہے اور اس کے ڈوبنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

اپنے مال کو ضائع ہونے کے خطرے پر پیش کرنا جُوا ہے۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے:  ’’کل شئی فیہ خطر فہو من المیسر‘‘   ہر وہ چیز جس میں مال چلے جانے کا خطرہ ہو، تو وہ جوئے میں سے ہے۔

(روح المانی، پارہ2، ص:694، سورۃ البقرہ، تحت الآیۃ219، مطبوعۃ کوئٹہ)علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ رد المحتار میں فرماتے ہیں:  ’’القمار من القرم الذی یزداد تارۃ و ینقص اخری، وسمی القمار ا لأنَّ کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذہب مالہ الی صاحبہ و یجوز ان یستفید مال صاحبہ و ہو حرام بالنص‘‘  قمار قمر سے بنا ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی گھٹتا ہے اور قمار(یعنی جوئے) کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ جو ا کھیلنے والوں میں سے ہر ایک میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس کا مال اس کے مقابل شخص کے پاس چلا جائے یا وہ اپنے مقابل شخص کے مال سے فائدہ حاصل کرے اور یہ نص سے حرام ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ج9، ص:665، مطبوعہ کوئٹہ)مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:  ’’پرائز بانڈ خریدنا اور ان پر انعام لینا جائز ہے۔ شریعت نے حرام مال کی کچھ صورتیں مقرر کی ہیں۔ جو یہ ہیں:  کسی کا مال چوری، غصب، ڈکیتی یا رشوت کے ذریعے لیا جائے، جوئے میں مال حاصل کیا جائے، سود میں لیا جائے اور یہ کہ بیع باطل میں قیمت لی جائے۔ پرائز بانڈ میں ان کی ایک بھی صورت نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انعامی بانڈ میں زیادت مشروط نہیں ہے لہٰذا سود نہیں ہے اور اپنے پیسے میں کمی نہیں ہوتی، لہٰذا جوا نہیں ہے۔ ملخصاً۔‘‘(وقار الفتاویٰ، ج1،ص:226،229، مطبوعہ  بزم وقار الدین، کراتشی)(2) پریمیئم بانڈ سودی، معاملے پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا اس کا خریدنا اور اس پر انعام حاصل کرنا حرام ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی نقطۂ نظر سے پریمیئم بانڈ کی خریداری کے لیے جمع کرائی گئی رقم قرض کے حکم میں ہوتی ہے اور قرض پر کسی قسم کا مشروط نفع حاصل کرنا سود ہے اور پریمیئم بانڈ میں یہ شرط ہوتی ہے کہ خریدی گئی تاریخ سے ہر تین یا چھ ماہ کے بعد بانڈ ہولڈر کو اضافی رقم کی صورت میں ایک متعین منافع دیا جائے گا، جو کہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ خواہ اس کا انعام نکلے یا نہ نکلے، لہٰذا پریمیئم بانڈ سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور اس سے بچنا فرض ہے۔

اللہ پاک کا قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے:  ’’(واَحَلَ اللہُ البَیْعَ و حَرَّم الروّبٰوا) ترجمہ: کنزالایمان: ’’اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود۔‘‘(القرآن، پارہ3،، سورۃالبقرۃ، آیت275)حدیث پاک میں سودی معاملہ کرنے والوں کے متعلق ارشاد ہوا: ’’ لعن رسول اللہﷺ آکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاہدیہ، قال: وہم سواء‘‘  رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔(الصحیح لمسلم، ج2،ص:27، مطبوعہ کراچی)دوسر حدیث میں فرمایا: ’’الربا سبعون حوباً، ایسرہا ان ینکح الرجل امہ‘‘  سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ، ص164، مطبوعہ کراچی)قرض پر مشروط نفع کو سود قرار دیتے ہوئے حدیث پاک میں فریاما:  ’’کل قرض جر منفعۃ فہو ربا‘‘  ہر قرض جو (مشروط) نفع لائے، تو وہ سود ہے۔(کنزالعمال، ج6،ص:99، مطبوعۃ، لاہور)درمختار میں ہے:  ’’فی الاشباہ: کل قرض جر نفعاً حرام‘‘  اشباہ میں ہے: ہر وہ قرض جو نفع لائے، حرام ہے۔یعنی جب وہ (نفع) مشروط ہو اور جواہر الفتاویٰ میں ہے: جب مشروط ہو تو وہ ایسا قرض ہوجائے گا جس میں منفعت ہو اور وہ سود ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ج7،ص:413، مطبوعہ کوئٹہ)وفقد اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ  علیہ و آلہ وسلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری تحقیق میں مذکورہ فتوی درست نہیں ، جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1)  مذکورہ فتوی  میں پرائز بانڈ   حکومت سے لینے کو  بیع (خرید وفروخت) قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ بات پرائز بانڈ کی حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ  پرائز بانڈ کی حقیقت یہ ہے کہ جب حکومت کو قرض کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے لیے یہ اسکیم چلاتی ہے کہ  عام لوگوں سے قرض وصول کرتی ہے   اور ان کو اس کی رسید کے طور پر بانڈ جاری کرتی ہے اور لوگوں کو قرض دینے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے موہوم انعام کا  لالچ دیتی ہے تاکہ لوگ اسے قرض دیں یعنی پرائز بانڈ صرف اس قرض کی رسید ہے اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی قابل فروخت چیز نہیں   اسی وجہ سے  جس بانڈ کی قیمت مثلا ہزار روپے ہو اور وہ بانڈ متعلقہ ادارے سے   کیش کروایا جا چکا ہو تو اب اسے کوئی پچاس روپے کا بھی خریدنے کو تیار نہ ہوگا حالانکہ بانڈ تو وہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اب اس کی قیمت ختم ہوگئی ؟نیز فقہ کا مشہور قاعدہ ہے کہ العبرۃ  فی العقود للمعانی  لا للالفاظ ( عقود میں اعتبار اصل معانی کا  ہوتا ہے ظاہری الفاظ  کا نہیں )تو جب حکومت کا اصل مقصد   قرض وصول کرنا ہے تو اس معاملہ کے  صرف ظاہر کو دیکھتے ہوئے بیع پر محمول کرنا جائز نہیں    اسی طرح فقہ  کا ایک اور مشہور قاعدہ الامور بمقاصدھا (امور میں اعتبار ان کے مقاصد کا ہوتا ہے) بھی اس  بات کی تا ئید کرتا ہے ۔  نیز آگے جا کر اسی فتوی میں پریمیم بانڈ  کے معاملہ کو قرض پر ہی محمول کیا ہے ، حالانکہ ان دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔

2)  مذکورہ فتویٰ میں سود کے بارے میں یہ  ضابطہ  بیان کیا  گیا ہے کہ:  ’’وہ تو مشروط زیادتی ہوتی ہے جبکہ یہاں کسی ایک سے  بھی حتمی طور پر حکومت کا یہ طے نہیں  ہوتا کہ اسے انعام ملے گا اس لیے یہ انعام سود       ہوگی کہ قرعہ اندازی میں جن کا نام نکل آیا وہ اضافہ ان  کو ملے گا  اور  چونکہ مجموعی پر سب سے یہ  طے ہے اس لیے ہر ایک کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اگر حکومت قرعہ اندازی نہ کروائے تو وہ عدالت جا کر حکومت کو مجبور کرواسکتا ہے  اس لیے یہ کہنا کہ الگ  سے کسی ایک سے انعام دینے کا وعدہ نہیں ہوتا یہ بات حقیقت کے خلاف ہے جب مجموعی طور پر سب سے معاہدہ ہے اور  ہر ایک کو قانونی حق حاصل ہے تو گویا سب سے ہی معاملہ طے ہے3)  اس  مسئلہ میں جوئے کی ظاہری صورت بھی ہے کہ   اس انعام کے بارے میں یہ طے نہیں ہے کہ    وہ انعام کس کو  ملے گا   اور جوئے کی ظاہری صورت سے بھی بچنا ضروری ہے اس لیے مذکورہ فتو ی میں یہ کہنا  ’’کہ اس میں جوئے کی پوری حقیقت نہیں پائی جارہی  ‘‘  درست نہیں۔

بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرۃ(2/159 -161)يوجد في عصرنا نوع آخر من الجوائز، و هو ما يعطي لحاملي السّندات الحکوميّة (Prizw Bonds) علي أساس القرعةو الحکم الشّرعي لهذه الجوائز موقف علي معرفة حقيقة هذه و حقيقتها: أن الحکومة ربما تحتاج إلي الاستقراض من عامّة الشّعب لمواجهة عجز ميزانيتها، فتعطي کل مُقرِض سنداً يمثِّل مديونية الحکومة تجاه حاملة، وإن هذا السّندات تکون ربوية في العادة، بحيث إن الحکومة تضمن لصاحبها أن تعيد إليه مبلغ القرض مع الفائدة الربويّةولکن في بعض الأحيان تصدر سندات لا تشترط فيها الزيادة الربويّة لکلّ حامل السند، ولکن تلتزم الحکومة بتوزيع الجوائز علي حامليها علي أساس القرعة، فکلُّ من خرج اسمه في القرعة استحق جائزة ربما تکون أضعاف أضعاف ماکان يحصل عليه من الفائدة الربويّة في الأحوال العاديّةوقد يستدلُّ علي مشروعية هذه الجوائز، بأنَّ الحکومة لا تشترط إعطاء الزِّيادة لأحد من المقرضين حاملي السّند، فالعقد مع کل واحد من حملة السّند عقد قرض بدون فائدة، ثمَّ إنَّها تعطي هذا الجوائز علي أساس القرعة، فکانت تبرُّعًا من قبلها، فلا يلزم منه الرِّبا، لأنَّ الرِّبا ما هو مشروط في عقد القرض      ولکن هذا الاستدلال غير صحيح:أمّا أوّلاً: فلأنَّ الحکومة تلتزم بتوزيع الجوائز علي حملة السَّند، فالزِّيادة علي مبلغ القرض و إن لم تکن مشروطة لکل واحد من المقرضين، ولکنها مشروطة تجاه مجموعة المقرضين، لأن الحکومة تلتزم علناً عند إصدار هذه السّندات أنها توزّع هذا الجوائز، بحيث إذا امتنعت الحکومة من توزيع الجوائز، يحقُّ لکل مقرِض أن يطالبها بذلک في القضاء، فلا يمکنُ أن يقال: إنَّها زيادة غير مشروطة في العقد، فکلما أشترطت الزيادة في عقد القرض، صارت رباًوأمّا ثانياً: فإن طبيعة هذه السَّندات لا تختلف عن السندات الربوية عموماً، وغاية ما تفعله الحکومات أنها بدلاً من إعطاء الفائدة إلي کل أحد من المقرضين، تجمع مبالغ الفوائد في وعاء واحد، وتوزَّعها علي مجموعة من المقرضين منتخبة علي أساس القرعة، فالعملية مبنيّة علي أساس المخاطرة في مبالغ الفوائد، ففائدة کل واحد أمَّا تضيع عليه، ومَّا تجلب مالاً أضعاف أضعاف الفائدة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved